آمنہ میمونہ سے: میمونہ۔۔۔۔۔" تمہارے بال بہت مائم اور خوبصورت ہیں"
میمونہ: (حیرت سے) اچھا تمھیں کیسے پتا چلا؟
آمنہ: تم باتھ دوم میں جاتے وقت اپنے بال ڑدیسنگ ٹیبل پر ہی بھول گئی تھیں
Nahi Ad!L
i am little more than useless
Tuesday, August 30, 2005
Sunday, August 28, 2005
سکول دی وڈی میڈم نے
پپو نوں کوٹیا ایس گل تے
نکی میڈم نوں اوں آندھا سی
آجا نی بیھ جا سائیکل تے
(اور ہاں یہ پپو میں توں نہیں ہوں۔۔۔۔!)۔
آنے کو کہ گئے تھے نہ آئیں خدا کرے
کیا لطف آرہا ہے مجھے انتطارمیں
(؟)
اور
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا۔
(غالب)
میں نے آج ہی اپنی بوسٹوں پر کچھ کمنٹس پڑھے۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں کہ میں نے کچھ دوسروں کی پوسٹیں اپنے بلاگ پر بغیر ان کے نام سے شا ئع کر دییں میں ان حضرات سے معافی مانگتا ہوں اور آج کے بعد ایسا نہیں ہو گیا۔۔ اگر آپ لوگوں نے یہ بات بھلا دہ ہو تو کمنٹس میں ضرو ر لکھیئے گا۔۔ مجھے تب بی تسلی ہو گی۔ شکریہ۔۔۔۔۔ آپکا مخلص
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی شب پوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا
اس شہر میں کس سے ملیں، ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص ہے دیوانہ تیرا
کوچی کو تےرے چھوڈ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا
ہم اور رسمِ بندگی،آشفتگی،اوفتگی
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسن بے پروا تیرا
دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکے ٹک گیے
الطاف کی بارش تیری، اکرام کا ردیا تیرا
اے بے دریغ و بے ایماں! ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تیری وحشت سہی، ہم کو سہی سوادا تیرا
ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا؟ دامن کبھی تھاما تیرا؟
ہاں ہاں تےری صورت حسیں! لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا تیرا
بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا
Friday, August 26, 2005
شاعری تقریبا سب کو ہی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ لہزا شاعری سے میرا بھی تھوڑا بہت شغف ہے۔ درج عزل ابن انشاء صاحب کی ہے جو مجھے بہت پسند ہے اور انشااللہ اس کو میں اردو میں بھی جلد ہی پوشٹ کروں گا لیکن ابھی رومن اردو میں ہی برداشت کریں۔۔۔۔۔ kal chaudhavii.n kii raat thii shab bhar rahaa charchaa teraa kal chaudhavii.n kii raat thii shab bhar rahaa charchaa teraa
kuchh ne kahaa ye chaa.Nd hai kuchh ne kahaa cheharaa teraa
ham bhii vahii.n maujuud the ham se bhii sab puuchhaa kiye
ham ha.Ns diye ham chup rahe manzuur thaa pardaa teraa
is shahar me.n kis se mile.n ham se to chhuuTii mahafile.n
har shaKhs teraa naam le har shaKhs diivaanaa teraa
kuuche ko tere chho.D kar jogii hii ban jaaye.n magar
jangal tere parbat tere bastii terii saharaa teraa
ham aur rasm-e-bandagii aashuftagii uftaadagii
ehasaan hai kyaa kyaa teraa ai husn-e-beparvaa teraa
do ashk jaane kis liye palko.n pe aa kar Tik gaye
altaaf kii baarish terii ikraam kaa dariyaa teraa
ai bedaareG-o-be_amaa.N ham ne kabhii kii hai fuGaa.N
ham ko terii vahashat sahii ham ko sahii saudaa teraa
tuu bevafaa tuu maharabaa.N ham aur tujh se bad-gumaa.N
ham ne to puuchhaa thaa zaraa ye vaqt kyuu.N Thaharaa teraa
ham par ye saKhtii kii nazar ham hai.n faqiir-e-rah_guzar
rastaa kabhii rokaa teraa daaman kabhii thaamaa teraa
haa.N haa.N terii suurat hasii.n lekin tuu aisaa bhii nahii.n
is shaKhs ke ashaar se shoharaa huaa kyaa kyaa teraa
beshak usii kaa dosh hai kahataa nahii.n Khaamosh hai
tuu aap kar aisii davaa biimaar ho achchhaa teraa
bedard sunanii ho to chal kahataa hai kyaa achchhii Gazal
aashiq teraa rusavaa teraa shaayar teraa "Inshaa" teraa
ويلنٹائن کے دِن کی حقيقت
ہر سال فروری کے مہينے ميں سينٹ ويلنٹائن کے نام پر دَنيا بھر ميں لاکھوں چاہنے والے ايک دَوسرے کو تحأيف کا تبادلہ کرتے ہيں ۔ ليکن سوال يہ ہے کہ يہ انوکھی شخصيت ہے کون اور ہم يہ دِن کس ليے مناتے ہيں ؟
تو ويلنٹائن کے دِن کی اور جِس انوکھی شخصيت کے نام سے يہ دِن منسَوب ہے کی حقيقت کيا ہے؟مگر حقيقت ميں دونوں ہی ايک راز ہيں ۔ ليکن اِس کے باوجود محبت کرنے والوں کے ليے اِس دِن کی اہميت مَسلم ہے۔ تو سينٹ ويلنٹائن کون تھا اور يہ دِن اَن کے نام سے کيسے مخصوص ہوا؟ کيتھولک چرچ کم سے کم تين مختلف سينٹ کا ذکر کرتا ہے جن کا نام ويلنٹائن تھا اور تينوں کی اموات غير طبعی تھيں۔
ايک مفروضہ جو دوسرے سب مفروزوں سے معتبر مانا جاتا ہے کے مطابق ويلنٹائن دوسری صدی ميں روم کا ايک پادری تھا ۔جب روم کے شہنشاہ کلاڈيس دوم نے فيصلہ کيا کے غير شادی شدہ نوجوان اچھے سپاہی ہوتے ہيں بجايے شادی شدہ کے جن کے بيگمات اور بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور اس بنياد پر اَس نے نوجوان سپاہيوں پر شادی نا کرنے کی پابندی عائد کر دی۔ سينٹ ويلنٹائن نے اس حکم کی نا انصافی کو محسوس کرتے ہويے نوجوانوں کی چوری چھپے شادياں کرنا جاری رکھا۔ اور جب کلاڈيس کو اسکی حکم عدولی کا علم ہوا تو اس نے ويلنٹائن کی موت کا پروانہ جاری کر ديا۔
دوسرے کئ مفروضوں کے مطابق ويلنٹائن کی موت کی وجہ اسکی بہت سے عيسايي قيديوں کو روم کی قيد خانوں سے فرار ميں مدد کرنے کو کہا گيا ہے جہاں ان قيديوں کے ساتھ غير انسانی برتاو کيا جاتا تھا۔
ايک اور خيال کے مطابق ويلنٹائن نے سب سے پہلے خود ويلنٹائن کی خواہشات کا اظہار ايک لڑکی سے کيا تھا جب وہ ايک قيد خانے ميں بند تھا۔ يہ خيال کيا جاتا ہے کہ وہ لڑکی قيد خانے کے منتظم کی بيٹی تھی۔ اور ويلنٹائن نے اسے تب ديکھا تھا جب وہ قيد خانے ميں ميں ويلنٹائن کی قيد کے دوران آيي تھی۔ اپنے مرنے سے پہلے ويلنٹائن نے اسے ايک پيغام لکھا تھا جس کے آخر ميں دستخط ميں لکھا تھا " تمہارا ويلنٹائن " اور يہ الفاظ آج بھی کم و بيش ايسے ہی استمعال ہوتے ہيں۔
قطع نظر اس بات کے کہ اس دن کی اصل حقيقت کيا ہے اس سے جڑی ہويي کہانياں اور محسوسات دل کو موہ ليتے ہيں اور اس بات ميں بھی حيرانی محسوس نہيں ہوتی کہ درميانی صديوں ميں سينٹ ويلنٹائن فرانس اور انگلستان کے مشہور ترين پادريوں ميں شمار ہوتا تھا۔
حوالہ ہسٹری چينل
ا آ ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن ں و ہ ھ ء ی ے
Thursday, August 25, 2005
ہاں! میں مسلمان ہوں۔
لیکن شاید نہیں ہوں۔
ہاں! میں شریف ہوں۔
لیکن شاید نہیں ہوں۔
میں ایک الجھن کا شکار ہوں۔
میرا دل اور یار کہتے ہیں کہ لڑکیوں سے دوستی کرنی چاہیے۔اس سے اعتماد بڑھتا ہے،اور انسان بہت کچھ سیکھتا بھی ہے۔
مگر میرا ضمیر۔۔۔ یہ قبول نہں کرتا۔
میرا ضمیر مسلمان ہے ،مگر دل۔۔۔
آج بھی اک دوست سے اس مسلہ پربات ہوئی۔
بات کچھ یوں ہے۔کہ میں نے اک لڑکی کو پچھلے دنوں نوٹس دیے اور اسے پڑھائی میں رہنمائی کی۔مگر کوئی غیر متعلقہ بات نہیں کی۔اگر کوئی اور میرئی جگہ ہوتا تو بات اب تک شاید بہت آگے نکل چکی ہوتی۔لڑکے کہتے ہیں میں نے موقع گنوا دیا۔
عشق مشق سے مجھے بلکل دلچسپی نہیں ہے۔اور آج تک کسی سے ہوابھی نہیں۔
کسی لڑکی سے دوستی اب سٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے۔لوگ اس سے آپ کے اعتماد کا اندازہ لگاتے ہیں۔
مگر میں۔۔۔۔ معاشرے کی خاک پروا کرتا ہوں۔
یہ معملہ تو میرے دل اور ضمیر کے مابین ہے۔میرا دل کرنے کے لیے لاکھ تاویلیں گڑھتا ہے۔مگر میرا ضمیر با آواز بلند نعرے تکبیر لگاتا ہے۔
شاید اسی حالت کے لیے غالب نے کہا تھا کہ "کعبہ ہے میرے پیچھے کلیسا ہے میرے آگے"۔
صبح-شام،سوتے-جاگتے،اٹھتے-بیٹھتے یہ جنگ جاری ہے۔
"مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے" ابھی تک تو میرا ضمیر زندہ ہے۔۔۔
مگر دل ناتواں۔۔۔۔بھی باز نہں آتا۔۔
میں کیا کروں۔۔؟
برائی دیکھ کر دل میرا بھی مچلتا ہے۔
میرا ایمان منٹ میں تولا ہوتا ہے،منٹ میں ماشہ۔
میں ایک نوجوان ہوں۔۔۔الجھن کا شکار
الجھن،الجھن ہے۔سمجھ نہیں آتی یہ دو لفظی ہے یا وسیع وعریض۔
Wednesday, August 24, 2005
اکیڈمی کے تو چار گھنٹے ناقابل بیان ہیں بے صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کرب سے گزرا ہو۔ لیکن چھٹی سے پانچ منٹ قبل میرے ہم ہمارا اگلا پڑاو موبائلز کی دوکان تھا۔ میں نے جاتے ہیK750i کا نعرہ مارا اور ان سے نکلوا۔۔۔والد صاحب جو کہ
قصہ
میرے موبائل کا۔۔۔۔۔۔۔!
بہت دنوں پہلے کی بات ہے جب والد صاحب نے میڑک اچھے نمبروں سے پاس کرنے پر ایک عدد موبائل فون لے کر دنیے کا وعدہ کیا تھا۔
اچھے نمبروں کا کہ کر اور سن کر ہم دونوں ہی اس وعدے کو بھول گئے۔ لیکن میڑک کا
رزلٹ آنے پر پتا چلا کہ ہمارے حاصل کردہ نمبروں کو بھی اچھے نمبروں ہی میں شمار کیا
جاتا ہے۔ اگر نہیں بھی کیا جاتا تو میں کروا ہی لیتا۔ ( ویسے 86 فی صد نمبر کم بھی
نہیں ہوتے۔) سارے گھر والوں نے میری بلائیں لیں اور میری خواہش یا انعام پوچھا۔ بس
پھر کیا تھا میں نے چھٹتے ہی اپنی محبوبہ* یعنی
Sony Ericsson K750iکی
فرمائش کر ڈالی۔ میرے والد صاحب
جو کہ ہماری کارکردگی پر مطمئن محسوس ہورے تھے، نے حامی بھر لی۔
وہ دن اور پرسوں کا دن شاید کوئی دن اور رات ایسی نہ ہوگی جب میں نے والدہ کو اپنی فرمائش یاد نہ دلائی ہو اور رات کو سونے کے بعد اپنی محبوبہ *کے درشن نہ کئے ہوں۔ آخر کار میری ان عادات کی مخبری میرے کسی بھائی ہی نے میرے والد صاحب سے کردی، اللہ بھلا کرے اس کا بھی جس نے یہ نیک کام
کیا۔(بے شک اس میں میرا بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ہاتھ تھا۔) والد صاحب جو کہ
شاید فرمائش والی بات بھول چکے تھے فورا کہا کہ ہمارے بیٹے کو آج ہی موبائل ملے گا۔
میں تو جباب جی پھولے نہ سمایا یا شاید اڑنے گا مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ لیکن یہ
حالت مجھ پر زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی جب پاپا کو اک انتہائی انتہائی ضروری کا
یاد آگیا تھا۔(ان موقعوں پر ضرور کچھ ایسا ہوتا ہے) لیکن پھر بھی میں نے تحمل کا
مظاہرہ کیا اور اپنےکمرے میں آگیا اور قیدو (ابو کا کام) کے ختم ہونے کا انتظار
کرنے لگا۔ غضیب یہ کہ اکیڈمی کا بھی ٹائم ہوگیا۔ امی پاس سے گزرئیں تو نہاتیت آرام
سے کہا کہ "ہون اکیڈمی واسطے اٹھ وی پےجاناں نہیں ائو"۔ مطلب پچھلے ساڑھے چار
گھنٹوں سے جو میں نے انتظار کی گھڑیاں کاٹیں ان کا کچھ نہیں؟؟؟؟؟؟۔۔۔ مرتا کیا نہ
کرتا۔۔ اگر چھٹی کرتا میں جان بوجھ کر تو موبائل کی بات شاید دور چلی جاتی کیونکہ
میرے والدین کچھ روایتی ثابت ہوئے ہیں۔
مرحوم موبائل(Mokia2300) پر میسج آتا منجاب بھائی صاحب کے کہ وہیں رکوں ہم تمہیں لینے آرہے ہیں۔ امید کی کرن پھر مچلنے لگی۔ میں ابھی باہر آیا ہی تھا کہ میے بھائی مجھے گاڑی میں بیٹھے اس مسکراہٹ کے ساتھ ملے جو اکثر اس وقت آتی تھی جب ہم میں سے کسی کی درینہ خواہش پوری ہوتی ہے اور جو چھوٹے کے چہرے پر اکثر ملتی تھی۔ چنانچہ وہ میرے لیے نوید تھی
پتہ نہیں ہم کب حفیظ سنٹر پہنچے۔ اک اور کرتب جو وہاں جا کر لگا یہ کہ جیسے ہی ہم اک والد صاحب کے کام سے فارغ ہو کر دوکان سے نکلے جو بجلی چلی گی۔ اس سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ صرف ٹھوکر پر ہی لائٹ جاتی ہی لیکن ثابت ہوا کہ جب بھی میں ترقی کرنے لگتا ہوں تو بجلی اپنا کرتب دیکھاتی ہے۔ پسند کو پرگرام شروع ہونے والا ہو، یا نیٹ کی کوئی فائل ڈاون لوڈ ہونے والی ہو۔ اک دو دفعہ تو جب پرھنے کو موڈ ہو تو تب بھی بجلی نے اپنا خصوصی کرتب دیکھایا۔
لیکن اب جب بجلی گئ تو محسوس ہوا کہ
والد صاحب یہ نہ فرما دیں کہ اب اگلی بار آئیں گے یعنی ایک دو ماہ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
کم از کم میں یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ ابھی ان سوچوں ہی میں تھا کہ انکھ چھپکی
اور لائٹ آچکی تھی جبکہ بھائی صاحب اک کونے میں کھڑے مجھے بُلا رہے تھے۔ پتہ نہیں
کہ سچ میں لائٹ گئی تھی کہ نہیں۔۔۔۔یا پھر یہ ان زخموں کی وجہ سے تھا جو بجلی نے
مجھے ان مواقع پر دئے تھے۔۔ چنانچہ میں نے کسی سے اس کے بارے میں پوچھنا مناسب نہ
سمجھا اور براہراست میرا دل بزرگ و برتر کے حضور ممنونیت سے جھک گیا کہ لائٹ نہیں
گئی اور اگر گئی بھی ہے تو آگئی۔ شکراََ جمیلاََ نے الفاط ادا کئے اور آگے بڑھ گئے۔
sonyericsson سے شاید پہلے ہی نالاں تھے کہا کہ یہ رہنے دے اور نوکیا وغیرہ کا لے لے۔۔۔۔ میں نے دل سے تو ہاں نہ کی شاید یہ میری فطرت میں نہیں کہ کسی کا مشورہ مانوں(میری امی بھی یہی کہتی ہیں) اوپر سے بھائی صاحب بے بھی دکھتی رگ کر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں نے بھی sonyericsson کے کبھی استعمال نہیں کئے۔ بندہ پوچھے کہ نہیں کئے تو اس میں sonyericssonکا کیا قصور ہے۔ اور اگر استعمال کئے ہی نہیں تو یہ بُرے کیسے ہو گئے۔ آخرکار میرے ہاتھ میں وہ سیٹ آگیا اور میں نے وہ دوکان دار کو واپس کرنے سے انکار کردیا۔ بھائی کا شاید یہ حرکت پسند نہ آئی اور لگا مجھ سے کھنچنے۔۔۔۔۔ اس وقت سب سے زیادہ نین و نقشہ جس چہرے کا تبدیل ہوا وہ تھا دوکان دار۔۔ کیونکہ سیٹ ابھی خریدا نہیں تھا۔ ابو
بھی میرے ضد سے تنگ آئے اور خرید کر گھر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب باقی کہانی نہیں میں
سنا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
Sunday, August 21, 2005
”پیارے عبدالرشید آج تم کچھ بجھے بجھے سے لگ رہے ہو۔خیریت تو ہے؟” ”میرے پیارے دوست ناصر حسین میں تمہارا ممنون ہوں کہ تم نے میری خیریت پوچھتے ہوئے صرف آج بجھا بجھا سا دکھائی دینے کی بات کی ہے ورنہ میں تو وہ چراغ ہوں جس کا تیل ختم ہو چکا ہے اور ہوا کا کوئی تیز جھونکا مجھے کسی وقت بھی بجھا سکتا ہے۔“ ”کیا تم آج کچھ زیادہ ہی مایوسی کی باتیں نہیں کررہے؟“ ”مایوسی کی باتیں کیوں نہ کروں، شوگر دو سو تک پہنچی ہوئی ہے، بلڈ پریشر نارمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔“ ” تمہارے گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟“ ”ڈاکٹر نے مصنوعی گھٹنے ڈالنے کا مشورہ دیا ہے۔“ ”تم ٹیکسلا کے ایک حکیم کی گولیاں استعمال کررہے تھے، ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوا؟“ ”اسی بدبخت حکیم نے تو میرا بیڑہ غرق کیا ہے۔ اس کی پہلی دو چار خوراکیں کھانے سے یوں لگا جیسے مجھے کبھی گھٹنوں کادرد تھا ہی نہیں۔“ ”اور اس کے بعد؟“ ”اور اس کے بعد گھٹنے سوجنا شروع ہوگئے اور میں چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوگیا۔ وہ حکیم گولیوں میں سٹرائیڈ استعمال کرتا ہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہیں خیر تم میری چھوڑو اپنی سناؤ دن کیسیگزررہے ہیں؟“ ”دن کیا گزرنے ہیں دانت سارے گر گئے ہیں، کمر میں درد رہتا ہے، پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہے، پاؤں ہر وقت سوجے رہتے ہیں۔“ ”کسی کا علاج کرارہے ہو“ ”مختلف امراض کیلئے مختلف ڈاکٹروں کے زیر علاج ہوں اس کے علاوہ ایک پیر صاحب سے دم بھی کراتا ہوں، نیز کوئی ملنے والا اگر کوئی ٹوٹکا بتاتا ہے تووہ بھی کرکے دیکھ لیتا ہوں۔“ ”میرا بھی یہی معاملہ ہے مگر کچھ لوگ تو بہت عجیب عجیب ٹوٹکے بھی بتاتے ہیں۔“ ”مثلاً؟“ ”مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ کسی اسی نوے سالہ بابے کی دھوتی لے کر ایک بالٹی پانی میں رات بھر ڈبو کر رکھو اوراگلے روز سے وہ پانی نہار منہ دو دو گھونٹ کرکے پینا شروع کرو یہ کورس ایک مہینے کا ہے اور شوگر کیلئے اکیسر ہے۔“ ”کیاخیال ہے لوگ اس قسم کی باتیں کرکے ہم بابوں کا مذاق نہیں اڑاتے؟“ ”بالکل یہی معاملہ ہے اصل میں نئی نسل کی آنکھوں کا پانی مرگیا ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز ہی نہیں رہی۔“ ”اور تم دیکھ رہے ہو لڑکیا ں کس قدر واہیات لباس پہننے لگی ہیں۔ قمیص کے چاک دن بدن اوپر کی طرف کھسکتے چلے جارہے ہیں۔“ ”اورکیا؟جب اس لباس میں وہ موٹرسائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہیں تو قمیص کچھ اور اوپر کوکھسک جاتی ہے۔ نوجوانوں کا اخلاق کیوں خراب نہ ہو۔“ ”یہ تو کچھ بھی نہیں سارا ہال روڈ گندی کیسٹوں اور سی ڈیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اب تو پاکستانی رقاصائیں بھی برہنہ رقص کرنے لگی ہیں اور دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ یہ سی ڈیزتیارکرنے والے سی ڈی کے با ہر اپنا نام پتہ اور ٹیلیفون نمبر لکھ کر بازار میں فروخت کرتے ہیں۔“ ”مجھے یقین نہیں آتا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟“ ”خود مجھے بھی یقین نہیں آتا تھا چنانچہ جس نوجوان نے مجھے بتایا کہ ایسا ہورہا ہے تو میں نے اسے پیسے دے کریہ سی ڈی ہال روڈ سے منگوائی کیونکہ سنی سنائی بات پریقین کرنا اور اسے آگے پھیلانا گنا ہ ہے، چنانچہ میں نے یہ سی ڈی دیکھی، مگراس کے باوجود میری آنکھوں کو یقین نہ آیا چنانچہ میں نے دوسری بار چلائی لیکن اس مرتبہ بھی مجھے یہی لگا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے چنانچہ تین چار بار دیکھنے کے بعد یقین آیا کہ یہ نظر کا دھوکہ نہیں، حقیقت ہے۔ اب بھی کبھی اس سلسلے میں بے یقینی کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے تو یہ سی ڈی چلا کراپنی تسلی کرلیتا ہوں۔ ناصر حسین !ہماری قوم کس طرف جارہی ہے؟“ ”بھائی عبدالرشیدیہ تو واقعی بہت افسوسناک صورت حال ہے، میں تمہارے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم مجھ سے جھوٹ بولو گے ، اس کے باوجود میں بھی تمہاری طرح سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینے کو گناہ سمجھتا ہوں، اگر ہوسکے تو یہ سی ڈی ایک دن کیلئے مجھے مستعار دینا میں وزیرثقافت محمد علی درانی صاحب کے نوٹس میں یہ بات لاؤں گا۔“ ”مگر وہ تو ایک ذمہ دار پوسٹ پر ہیں ان کیلئے تو سنی سنائی بات پر یقین کرنا اور بھی مشکل ہے تم یہ سی ڈی انہیں پوسٹ ہی کر دینا۔“ ”ٹھیک ہے، یہ نیک کام آج ہی کرتے ہیں ویسے میں نے تم سے ایک مشورہ بھی کرنا تھا۔“ ”کیوں نہیں ضرور کرو، دوست ہوتے کس لئے ہیں؟“ ”تمہیں معلوم ہے میری زوجہ بہت عرصے سے بیمارچلی آرہی ہے۔“ ”نہیں مجھے توعلم نہیں کیا پرابلم ہے ہماری بھابی کو؟“ ”اسے اکثر نزلہ زکام رہتا ہے چنانچہ چھینکنے پرآتی ہے توچھینکتی ہی چلی جاتی ہے۔ “ ”اوہو ،یہ تو واقعی بہت خطرناک بیماری ہیتمہیں یقینا کسی ہمدرد نے عقدثانی کا مشورہ دیا ہوگا۔“ ”بالکل بالکل ، تمہیں کیسے چلا؟“ ”میری بیوی بھی ایک تشویشناک بیماری میں مبتلا ہے۔ رات کو سوتے میں خوفناک خراٹے لیتی ہے اورپھر ان کی گونج سے خود ہی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتی ہے چنانچہ نہ وہ رات کوچین سے سوسکتی ہے اور نہ میں صحیح طرح سو پاتا ہوں لہٰذا میرے ایک ہمدرد نے مجھے بھی عقدثانی کامشورہ دیاہے اور اس کی یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ عمر کے اس حصے میں ہمیں کسی صحت مند اور نوجوان خاتون سے شادی کرنا چاہئے جو ہماری صحیح طرح دیکھ بھال کرسکے۔ اس کے علاوہ توہمارا کوئی مقصد ہے ہی نہیں۔“ ”پھر تم نے کیا سوچا ہے؟“ ”میرے محلے میں ایک یتیم لڑکی ہے۔ اسے سہارا دینے کی سوچ رہا ہوں، ویسے تمہاری نظروں میں بھی کوئی ہو تومجھے بتانا۔“ ”میری فیکٹری میں بہت سی بے سہارا لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بہت خوبصورت ہے مگر مجھے اس کی خوبصورتی سے کیا لینا دینا ہے اس لیے مجھے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ ضرورت مند لگتی ہے ۔میں نے اس سے عقد کاارادہ کیاہے جو گھریلو فساد سے بچنے کیلئے فی الحال خفیہ رکھوں گا ۔ اسلئے دعا کرو اللہ تعالیٰ میری یہ نیکی قبول فرمائیں اور ہاں وہ سی ڈی ذرا مجھے جلدی بھجوا دینا۔