آمنہ میمونہ سے: میمونہ۔۔۔۔۔" تمہارے بال بہت مائم اور خوبصورت ہیں"
میمونہ: (حیرت سے) اچھا تمھیں کیسے پتا چلا؟
آمنہ: تم باتھ دوم میں جاتے وقت اپنے بال ڑدیسنگ ٹیبل پر ہی بھول گئی تھیں
i am little more than useless
میں نے آج ہی اپنی بوسٹوں پر کچھ کمنٹس پڑھے۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں کہ میں نے کچھ دوسروں کی پوسٹیں اپنے بلاگ پر بغیر ان کے نام سے شا ئع کر دییں میں ان حضرات سے معافی مانگتا ہوں اور آج کے بعد ایسا نہیں ہو گیا۔۔ اگر آپ لوگوں نے یہ بات بھلا دہ ہو تو کمنٹس میں ضرو ر لکھیئے گا۔۔ مجھے تب بی تسلی ہو گی۔ شکریہ۔۔۔۔۔ آپکا مخلص
شاعری تقریبا سب کو ہی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ لہزا شاعری سے میرا بھی تھوڑا بہت شغف ہے۔ درج عزل ابن انشاء صاحب کی ہے جو مجھے بہت پسند ہے اور انشااللہ اس کو میں اردو میں بھی جلد ہی پوشٹ کروں گا لیکن ابھی رومن اردو میں ہی برداشت کریں۔۔۔۔۔
kal chaudhavii.n kii raat thii shab bhar rahaa charchaa teraa
kal chaudhavii.n kii raat thii shab bhar rahaa charchaa teraa
kuchh ne kahaa ye chaa.Nd hai kuchh ne kahaa cheharaa teraa
ham bhii vahii.n maujuud the ham se bhii sab puuchhaa kiye
ham ha.Ns diye ham chup rahe manzuur thaa pardaa teraa
is shahar me.n kis se mile.n ham se to chhuuTii mahafile.n
har shaKhs teraa naam le har shaKhs diivaanaa teraa
kuuche ko tere chho.D kar jogii hii ban jaaye.n magar
jangal tere parbat tere bastii terii saharaa teraa
ham aur rasm-e-bandagii aashuftagii uftaadagii
ehasaan hai kyaa kyaa teraa ai husn-e-beparvaa teraa
do ashk jaane kis liye palko.n pe aa kar Tik gaye
altaaf kii baarish terii ikraam kaa dariyaa teraa
ai bedaareG-o-be_amaa.N ham ne kabhii kii hai fuGaa.N
ham ko terii vahashat sahii ham ko sahii saudaa teraa
tuu bevafaa tuu maharabaa.N ham aur tujh se bad-gumaa.N
ham ne to puuchhaa thaa zaraa ye vaqt kyuu.N Thaharaa teraa
ham par ye saKhtii kii nazar ham hai.n faqiir-e-rah_guzar
rastaa kabhii rokaa teraa daaman kabhii thaamaa teraa
haa.N haa.N terii suurat hasii.n lekin tuu aisaa bhii nahii.n
is shaKhs ke ashaar se shoharaa huaa kyaa kyaa teraa
beshak usii kaa dosh hai kahataa nahii.n Khaamosh hai
tuu aap kar aisii davaa biimaar ho achchhaa teraa
bedard sunanii ho to chal kahataa hai kyaa achchhii Gazal
aashiq teraa rusavaa teraa shaayar teraa "Inshaa" teraa
ويلنٹائن کے دِن کی حقيقت
ہر سال فروری کے مہينے ميں سينٹ ويلنٹائن کے نام پر دَنيا بھر ميں لاکھوں چاہنے والے ايک دَوسرے کو تحأيف کا تبادلہ کرتے ہيں ۔ ليکن سوال يہ ہے کہ يہ انوکھی شخصيت ہے کون اور ہم يہ دِن کس ليے مناتے ہيں ؟
تو ويلنٹائن کے دِن کی اور جِس انوکھی شخصيت کے نام سے يہ دِن منسَوب ہے کی حقيقت کيا ہے؟مگر حقيقت ميں دونوں ہی ايک راز ہيں ۔ ليکن اِس کے باوجود محبت کرنے والوں کے ليے اِس دِن کی اہميت مَسلم ہے۔ تو سينٹ ويلنٹائن کون تھا اور يہ دِن اَن کے نام سے کيسے مخصوص ہوا؟ کيتھولک چرچ کم سے کم تين مختلف سينٹ کا ذکر کرتا ہے جن کا نام ويلنٹائن تھا اور تينوں کی اموات غير طبعی تھيں۔
ايک مفروضہ جو دوسرے سب مفروزوں سے معتبر مانا جاتا ہے کے مطابق ويلنٹائن دوسری صدی ميں روم کا ايک پادری تھا ۔جب روم کے شہنشاہ کلاڈيس دوم نے فيصلہ کيا کے غير شادی شدہ نوجوان اچھے سپاہی ہوتے ہيں بجايے شادی شدہ کے جن کے بيگمات اور بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور اس بنياد پر اَس نے نوجوان سپاہيوں پر شادی نا کرنے کی پابندی عائد کر دی۔ سينٹ ويلنٹائن نے اس حکم کی نا انصافی کو محسوس کرتے ہويے نوجوانوں کی چوری چھپے شادياں کرنا جاری رکھا۔ اور جب کلاڈيس کو اسکی حکم عدولی کا علم ہوا تو اس نے ويلنٹائن کی موت کا پروانہ جاری کر ديا۔
دوسرے کئ مفروضوں کے مطابق ويلنٹائن کی موت کی وجہ اسکی بہت سے عيسايي قيديوں کو روم کی قيد خانوں سے فرار ميں مدد کرنے کو کہا گيا ہے جہاں ان قيديوں کے ساتھ غير انسانی برتاو کيا جاتا تھا۔
ايک اور خيال کے مطابق ويلنٹائن نے سب سے پہلے خود ويلنٹائن کی خواہشات کا اظہار ايک لڑکی سے کيا تھا جب وہ ايک قيد خانے ميں بند تھا۔ يہ خيال کيا جاتا ہے کہ وہ لڑکی قيد خانے کے منتظم کی بيٹی تھی۔ اور ويلنٹائن نے اسے تب ديکھا تھا جب وہ قيد خانے ميں ميں ويلنٹائن کی قيد کے دوران آيي تھی۔ اپنے مرنے سے پہلے ويلنٹائن نے اسے ايک پيغام لکھا تھا جس کے آخر ميں دستخط ميں لکھا تھا " تمہارا ويلنٹائن " اور يہ الفاظ آج بھی کم و بيش ايسے ہی استمعال ہوتے ہيں۔
قطع نظر اس بات کے کہ اس دن کی اصل حقيقت کيا ہے اس سے جڑی ہويي کہانياں اور محسوسات دل کو موہ ليتے ہيں اور اس بات ميں بھی حيرانی محسوس نہيں ہوتی کہ درميانی صديوں ميں سينٹ ويلنٹائن فرانس اور انگلستان کے مشہور ترين پادريوں ميں شمار ہوتا تھا۔
حوالہ ہسٹری چينل
قصہ
میرے موبائل کا۔۔۔۔۔۔۔!
بہت دنوں پہلے کی بات ہے جب والد صاحب نے میڑک اچھے نمبروں سے پاس کرنے پر ایک عدد موبائل فون لے کر دنیے کا وعدہ کیا تھا۔
اچھے نمبروں کا کہ کر اور سن کر ہم دونوں ہی اس وعدے کو بھول گئے۔ لیکن میڑک کا
رزلٹ آنے پر پتا چلا کہ ہمارے حاصل کردہ نمبروں کو بھی اچھے نمبروں ہی میں شمار کیا
جاتا ہے۔ اگر نہیں بھی کیا جاتا تو میں کروا ہی لیتا۔ ( ویسے 86 فی صد نمبر کم بھی
نہیں ہوتے۔) سارے گھر والوں نے میری بلائیں لیں اور میری خواہش یا انعام پوچھا۔ بس
پھر کیا تھا میں نے چھٹتے ہی اپنی محبوبہ* یعنی
Sony Ericsson K750iکی
فرمائش کر ڈالی۔ میرے والد صاحب
جو کہ ہماری کارکردگی پر مطمئن محسوس ہورے تھے، نے حامی بھر لی۔
وہ دن اور پرسوں کا دن شاید کوئی دن اور رات ایسی نہ ہوگی جب میں نے والدہ کو اپنی فرمائش یاد نہ دلائی ہو اور رات کو سونے کے بعد اپنی محبوبہ *کے درشن نہ کئے ہوں۔ آخر کار میری ان عادات کی مخبری میرے کسی بھائی ہی نے میرے والد صاحب سے کردی، اللہ بھلا کرے اس کا بھی جس نے یہ نیک کام
کیا۔(بے شک اس میں میرا بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ہاتھ تھا۔) والد صاحب جو کہ
شاید فرمائش والی بات بھول چکے تھے فورا کہا کہ ہمارے بیٹے کو آج ہی موبائل ملے گا۔
میں تو جباب جی پھولے نہ سمایا یا شاید اڑنے گا مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ لیکن یہ
حالت مجھ پر زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی جب پاپا کو اک انتہائی انتہائی ضروری کا
یاد آگیا تھا۔(ان موقعوں پر ضرور کچھ ایسا ہوتا ہے) لیکن پھر بھی میں نے تحمل کا
مظاہرہ کیا اور اپنےکمرے میں آگیا اور قیدو (ابو کا کام) کے ختم ہونے کا انتظار
کرنے لگا۔ غضیب یہ کہ اکیڈمی کا بھی ٹائم ہوگیا۔ امی پاس سے گزرئیں تو نہاتیت آرام
سے کہا کہ "ہون اکیڈمی واسطے اٹھ وی پےجاناں نہیں ائو"۔ مطلب پچھلے ساڑھے چار
گھنٹوں سے جو میں نے انتظار کی گھڑیاں کاٹیں ان کا کچھ نہیں؟؟؟؟؟؟۔۔۔ مرتا کیا نہ
کرتا۔۔ اگر چھٹی کرتا میں جان بوجھ کر تو موبائل کی بات شاید دور چلی جاتی کیونکہ
میرے والدین کچھ روایتی ثابت ہوئے ہیں۔
اکیڈمی کے تو چار گھنٹے ناقابل بیان ہیں بے صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کرب سے گزرا ہو۔ لیکن چھٹی سے پانچ منٹ قبل میرے
مرحوم موبائل(Mokia2300) پر میسج آتا منجاب بھائی صاحب کے کہ وہیں رکوں ہم تمہیں لینے آرہے ہیں۔ امید کی کرن پھر مچلنے لگی۔ میں ابھی باہر آیا ہی تھا کہ میے بھائی مجھے گاڑی میں بیٹھے اس مسکراہٹ کے ساتھ ملے جو اکثر اس وقت آتی تھی جب ہم میں سے کسی کی درینہ خواہش پوری ہوتی ہے اور جو چھوٹے کے چہرے پر اکثر ملتی تھی۔ چنانچہ وہ میرے لیے نوید تھی
پتہ نہیں ہم کب حفیظ سنٹر پہنچے۔ اک اور کرتب جو وہاں جا کر لگا یہ کہ جیسے ہی ہم اک والد صاحب کے کام سے فارغ ہو کر دوکان سے نکلے جو بجلی چلی گی۔ اس سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ صرف ٹھوکر پر ہی لائٹ جاتی ہی لیکن ثابت ہوا کہ جب بھی میں ترقی کرنے لگتا ہوں تو بجلی اپنا کرتب دیکھاتی ہے۔ پسند کو پرگرام شروع ہونے والا ہو، یا نیٹ کی کوئی فائل ڈاون لوڈ ہونے والی ہو۔ اک دو دفعہ تو جب پرھنے کو موڈ ہو تو تب بھی بجلی نے اپنا خصوصی کرتب دیکھایا۔
لیکن اب جب بجلی گئ تو محسوس ہوا کہ
والد صاحب یہ نہ فرما دیں کہ اب اگلی بار آئیں گے یعنی ایک دو ماہ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
کم از کم میں یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ ابھی ان سوچوں ہی میں تھا کہ انکھ چھپکی
اور لائٹ آچکی تھی جبکہ بھائی صاحب اک کونے میں کھڑے مجھے بُلا رہے تھے۔ پتہ نہیں
کہ سچ میں لائٹ گئی تھی کہ نہیں۔۔۔۔یا پھر یہ ان زخموں کی وجہ سے تھا جو بجلی نے
مجھے ان مواقع پر دئے تھے۔۔ چنانچہ میں نے کسی سے اس کے بارے میں پوچھنا مناسب نہ
سمجھا اور براہراست میرا دل بزرگ و برتر کے حضور ممنونیت سے جھک گیا کہ لائٹ نہیں
گئی اور اگر گئی بھی ہے تو آگئی۔ شکراََ جمیلاََ نے الفاط ادا کئے اور آگے بڑھ گئے۔
ہم ہمارا اگلا پڑاو موبائلز کی دوکان تھا۔ میں نے جاتے ہیK750i کا نعرہ مارا اور ان سے نکلوا۔۔۔والد صاحب جو کہ
sonyericsson سے شاید پہلے ہی نالاں تھے کہا کہ یہ رہنے دے اور نوکیا وغیرہ کا لے لے۔۔۔۔ میں نے دل سے تو ہاں نہ کی شاید یہ میری فطرت میں نہیں کہ کسی کا مشورہ مانوں(میری امی بھی یہی کہتی ہیں) اوپر سے بھائی صاحب بے بھی دکھتی رگ کر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں نے بھی sonyericsson کے کبھی استعمال نہیں کئے۔ بندہ پوچھے کہ نہیں کئے تو اس میں sonyericssonکا کیا قصور ہے۔ اور اگر استعمال کئے ہی نہیں تو یہ بُرے کیسے ہو گئے۔ آخرکار میرے ہاتھ میں وہ سیٹ آگیا اور میں نے وہ دوکان دار کو واپس کرنے سے انکار کردیا۔ بھائی کا شاید یہ حرکت پسند نہ آئی اور لگا مجھ سے کھنچنے۔۔۔۔۔ اس وقت سب سے زیادہ نین و نقشہ جس چہرے کا تبدیل ہوا وہ تھا دوکان دار۔۔ کیونکہ سیٹ ابھی خریدا نہیں تھا۔ ابو
بھی میرے ضد سے تنگ آئے اور خرید کر گھر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب باقی کہانی نہیں میں
سنا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!