Wednesday, August 16, 2006

لمز میں تین ہفتے LUMS NOP

لمز میں تین ہفتے

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں NOP  کا Evaluation ٹیسٹ (جس کا میں نے پہلے ایک پوسٹ میں ذکر کیا تھا) پاس کرنے کے بعد لمز والوں نے ہمیں اپنے پاس تین ہفتوں کے لیے بلایا۔ سوچا تین ہفتے chill ماریں گے لیکن وہاں جا کر دیکھا تو سین بالکل الٹ تھا۔ پہلے ہی دن ہم سے چار ساڈھے چار گھنٹوں کا ٹیسٹ لے مارا۔ اور پھر آئندہ تین ہفتے بھی ہم کو خوب لتاڑا کہ نانی یاد آئی۔ روزانہ دو پیریڈز ہوتے تھے۔ ہر پیریڈ 3 سے 4 گھنٹوں کا۔ اور ظالموں نے اسی بات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہوم ورک بھی دبا کر دیا۔

وہ علیحدہ بات ہے کہ ہم جیسے شغلیہ "بچوں" نے وہاں بھی شغل کا سامان گم ہونے نہیں دیا۔ پورے پاکستان نے 150 بچوں کو سلیکٹ کیا گیا تھا۔ لمز ہوسٹل کی یادیں کبھی بھولنے نہیں پائیں گی۔ صبح 8:55 پر آنکھ کھلنی اور 9 بجے کلاس میں حاضر ہونا۔ ساری رات chill  اور صبح نماز کے بعد سونا۔ کامن روم میں ہی کرکٹ کے فلڈ لائٹ میچز ہوتے اور شطرنج کے چار چار گھنٹوں کے مقابلے۔ ہمارے کامن روم کے تقریبا 10 افراد تھے۔ جن میں سے 4 گلگت سے، 5 لاہور سے، 1 کراچی سے، 1 سکھر سے اور 3 پشاور سے تھے۔ صرف ہم 5 لاہوریوں کو ہی ہاسٹل میں رہنے کا اجازت نامہ مل سکا تھا۔ سب سے زبردست دوستیاں بن گئیں ہیں اور انشاء اللہ سب سے رابطہ رہے گا۔

اب میں اس سیشن کی ذرا وضاحت کرتا ہوں۔  NOP یعنی National Outreach Programe لمز کا ایک سکالر شپ پروگرام ہے جس کے تحت "لائق" اور مستحق بچوں کو یہاں مفت تعلیم دی جائے گی۔ پہلے ان کا ایک ٹیسٹ میں پاس کر چکا ہوں اور یہ کوچنگ سیشن ایک فائنل ٹیسٹ LBAT/SAT کے لیے تھا۔ LBAT  اس بار نومبر میں متوقع ہے۔ دعا کیجے کی میں یہ پاس کر جائوں۔

NOP سیشن میں میرے بننے والے دوست
جلال خان          ڈیرہ اسماعیل خان (کوہاٹ کیڈٹ کالج)
ناصر حسین          ہنزہ
طلحہ قاضی          کراچی
حامد               اسلامیہ کالج، پشاور
ابرار چودھری          لاہور
حافظ اظہار          لاہور
حافظ ارسلان          لاہور
حینف               سکھر
احسن               سکھر

Monday, August 07, 2006

بڑے دنوں کی بات ہے

بڑے دنوں کی بات ہے
مجھے تو اب یاد بھی نہیں
فضا عجب تھی لہر میں
میں جا رہا تھا شہر میں
اک گلی کے موڑ پر
کسی نے ہاتھ جوڑ کر
بڑی ادا سے یہ کہا
میری قسم ذرا رکو
میری قسم ذرا تھمو
میں اس کے دل کو توڑ کر
اور اس کو روتا چھوڑ کر
میں اک شان سے گزر گیا
مجھے تو اب یاد بھی نہیں
پھر اک اداس شام کو
میں چل پڑا اس راہ کو
پھر اسی گلی کے موڑ پر
میں رکا دل کو توڑ کر
مگر وہاں تھا نہ کوئی
جو کہتا ہاتھ جوڑ کر
میری قسم ذرا رکو
میری قسم ذرا تھمو