Thursday, December 29, 2005

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتاہوں
یہ جنت ہر مبارک زاہدوں کو
کہ میں تیرا سامنا چاہتاہوں
ذرا سا تو دل ہے مگر شوق اتنا
میں وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اقبال


ایک دفعہ علامہ اقبال کے پاس کالج کے چند لڑکے آئے اور شوخی سے کنے لگے کہ سر جی آپ نے تو کہا تھا کہ عشق کی کوئی انتہا نہیں ہے؟ علامہ صاحب نے کہا جی بالکل!۔ لڑکے مچلے اور کہا تو جناب پھر آپ نے یہ کیوں لکھا کہ "تیرے عشق کی انتہا چاپتا ہوں"۔ سر اقبال مسکرائے اور کہا اس سے اگلے مصرعے پر بھی تو غور کرو نوجوانو۔

یہ بات سمجھ میں آئی نہیں اور امی نے سمجھائ نہیں
میں کیسے میٹھی بات کروں جب میٹھی کوئی چیز کھائی نہیں

جب نیا مہینہ آتا ہے بجلی کا بل آجاتا ہے
حالانکہ بادل بیچارا یہ بجلی مفت لٹاتا ہے
پھر آپنے گھر میں ہم نے بجلی بادل سے کیوں لگوائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

اگر بلی شیر کی خالہ ہے، پھر ہم نے اس کو کیوں پالا ہے
کیا شیر بہت نالائق ہے، اس نے خالا کو مار نکالا ہے
ہا جنگل کے راجہ کے یاں، ملتی دودھ ملائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

کیوں لمبے بال ہیں بھالو کے؟ کیوں اس نے ٹنڈ کرائی نہیں
کیا وہ بھی کندا بچہ ہے؟ یا اسکے ابو بھائی نہیں؟
یہ اسکا ہئیر سٹائل ہے ؟ یا جنگل میں کوئی نائی نہیں؟
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

مامی بھی پکاتی ہیں حلوہ آخر وہ کیوں حلوائی نہیں
بھیا کی منگنی ہو گئی ہے بھابھی ابھی تک کیوں آئی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

نانی کے میاں جب نانا ہیں اور دادی کے دادا ہیں
تب آپی سے پوچھا کیا باجی کے میاں باجا ہیں
وہ ہنس ہنس کے کنے لگیں اے نہیں یوں بھائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

جو تارے جگ مگ کرتے ہیں کیا انکی کوئی چاچی تائی نہیں
ہوگا کوئی رشتہ سورج سے یہ بات ہمیں بتلائی نہیں
پر چاند کس کا ماموں ہے جب امی کا وہ بھائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

یہ بات سمجھ میں آئی نہیں اور امی نے سمجھائی نہیں
عادل کیسے میٹھی بات کرے جب میٹھی کوئی چیز کھائی نہیں

Thursday, December 22, 2005

دشتِ تنہائی میں

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سایے تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو سے سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور افق کے پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تیری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پر اس وقت تیری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن، آ بھی گئی وصل کی رات

فیض احمد فیض

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم رہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا عالم میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، فقط میں نے چاہا تھا یوں ہو جائے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریخ بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجئے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

فیض احمد فیض

میں نے کہا تھا نہ کہ جب پیپرز ہو رہے ہوں تو بڑے فضول کام یاد آتے ہیں ، صرف یاد ہی نہیں آتے بلکہ دلِ ناداں انھیں کر بھی ڈالتا ہے، ابھی یہ ہی دیکھ لیجئے نہ چاہتے ہوئے بھی فیض صاحب کی دو غزلیں لکھ ڈالیں، اور ظاہر ہے اب انھیں پوسٹ بھی کرنا پڑے گا۔۔ ہے نہ

Wednesday, December 21, 2005

دسمبر ٹیسٹ

ہا ۔۔۔۔۔۔ آج اتنے دنوں بعد بلاگنگ کرنے لگا ہوں کوشش کروں گا کہ کم از کم اک پوسٹ تو ہو ہی جائے۔۔۔ اصل میں میرے کالج میں دسمبر ٹیسٹ ہورہے ہیں اکثر لوگ تو جانتے ہی ہیں کہ ایف ایس سی کرنا جوئے شیر لانے سے بھی بڑا کام ہے اور ہاں خاص کر جب پیپرز ہو رہے ہوں تو وہ وہ کام کرنے کو دل کرتا ہے جن کو عام حالات میں کرنے کو دل نہیں چاہتا ۔ بڑی مشکل سے وقت نکالا ہے۔ اب اس کے فورا بعد اکیڈمی میں بھی لانگ ٹیسٹ شروع ہو جائیں گے۔ اب اگلی پوسٹ شاید اگلے سال ہی میں ہو۔۔۔ بہر حال نیا سال اور کرسمس مبارک۔