Nahi Ad!L
i am little more than useless
Monday, June 26, 2006
Tuesday, June 20, 2006
بجٹ 2006-07 الف
حرف تمنا ,,,ارشاد احمد حقانی
پاکستان کے ایک ریڈیو چینل ایف ایم 103کی ایک چار رکنی ٹیم نے چند روز پہلے حالات حاضرہ کے حوالے سے راقم کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا جو اس چینل سے بار بار نشر کیا جا رہا ہے۔ میں نے مناسب جانا کہ یہ انٹرویو ”جنگ“کے قارئین تک بھی پہنچ جائے۔ ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ صدر مشرف اور امریکہ کے تعلقات میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تواس کے کیا اثرات پاکستان کی سیاست پر پڑ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں انتخابات (صدارتی اور پارلیمانی)کب تک ہونے کا امکان ہے نیز صدر کے وردی میں رہتے ہوئے موجودہ اسمبلیوں ہی سے دوبارہ منتخب ہونے کے کس قدر امکانات ہیں اور اس پالیسی کے کیا مضمرات ہیں ۔ اس سوال کا جو جواب راقم نے دیا، پیش خدمت ہے: ج … آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بالکل واضح اور الگ ہے۔ وہ ہے صدر پرویز مشرف کے لئے امریکی سپورٹ میں کمی کے اندیشے یا خبریں۔ دوسرا حصہ ہے ملک کی داخلی سیاسی صورتحال، الیکشن کے امکانات اور پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے معاملات وغیرہ۔ میں پہلے آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب دوں گا آج مشرف بش تعلقات یا پاک امریکہ تعلقات کہہ لیجئے، اس سطح پر نہیں ہیں جس سطح پر 9/11کے فوراً بعد یا سال دو سال بعد تک رہے ہیں اب اس وقت ان میں جزوی انحطاط آگیا ہے۔ دونوں طرف کچھ خدشات ہیں کچھ ذہنی تحفظات ہیں۔ مشرف صاحب کا کہنا یہ ہے کہ بعض حوالوں سے پاکستان کو ایسا لائحہ عمل اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے یا آمادہ کیا جا رہا ہے جو ہم اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ مثال کے طور پر عراق میں ہمیں فوجیں بھیجنے کے لئے کہا گیا ہم پر بڑا دباؤ تھا۔ طرح طرح کے لالچ بھی دیئے گئے مگر ہم اپنی افواج عراق نہ بھیجنے کے فیصلے پر قائم رہے اگرچہ ہمارا بازو مروڑنے کی کوشش بھی تھوڑی بہت ہوئی لیکن ہم نے مزاحمت کی اور انکار کر دیا ۔ یوں ظاہر ہے کہ امریکہ مشرف کے اس طرز عمل سے خوش نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ کہ اس وقت ایران کا مسئلہ بہت بڑا ایشو بنا ہوا ہے۔ ایران کے حوالے سے امریکہ کی جو ترجیحات ہیں ظاہر ہے وہ ہماری نہیں ہیں۔ ہم یہ توا کثر کہہ چکے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانے چاہئیں یہ ہمارا موقف ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مغرب کا یا امریکہ کا جو بھی اختلاف ہے وہ مذاکرات کے ذریعے دور کیا جانا چاہئے۔ طاقت کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہئے لیکن امریکہ ہماری دونوں باتوں سے متفق نہیں ہے۔ امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ ایران کا یہ موقف کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی کے حصول کے لئے کوشاں ہے، غلط ہے یہ ایک سراب ہے، دھوکہ ہے۔ دراصل ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے ہم ایران کو ایسا کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے لیکن غیر جانبدار عالمی مبصرین بشمول پاکستان تمام کے تمام یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران واقعی جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا کامیاب کوشش کر چکا ہے۔ ہم اس کی بات کو Face Valueپر لیتے ہیں ہمارا موقف یہ ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے ا یٹمی توانائی کے حصول کی کوشش کر رہا ہے اور یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آئی ای اے ای کے سربراہ محمد البرادی نے اپنی جو آخری رپورٹ دی ہے اس میں انہوں نے بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ ہمارے پاس قطعاً اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے راستے پر چل رہا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم پوری طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس حوالے سے ایران کی طرف سے کی جانے والی تیاریوں کا ہمیں پوری طرح علم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ چیزیں ہمارے علم میں بھی نہ ہوں اور ہم اس شک میں ہیں کہ اس کے عزائم کیا ہیں۔ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ ایران کے تمام دعوے سراب ہیں اس کا ایک ہی Objectiveہے اور وہ ہے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول۔ چونکہ ایران تیل کی مقدار اور پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے لہٰذا تیل کی اس قدر بھاری مقدار کی موجودگی میں توانائی کا حصول ایران کے لئے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے پاس گیس کے ذخائر بھی بے پناہ ہیں اس لئے امریکہ کو اندیشہ ہے کہ یورینیم کی افزودگی (Enrichment of Uranium)کی جو بات ایران کر رہا ہے یہ صرف بم بنانے کے لئے ہے اور ہم اس کی اجازت کسی قیمت پر نہیں دیں گے چاہے اس کے لئے ہمیں طاقت ہی استعمال کیوں نہ کرنی پڑے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم ایران کے عزائم کے بارے میں کلیئر نہیں ہیں ہم اس کی اعلان کردہ پالیسی کو Face Vlueپر لیتے ہیں لہٰذا ہم اس کی بات پر یقین کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اختلاف کہیں ہے بھی تو طاقت کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے وزیر خارجہ توکہہ چکے ہیں کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو اسے پورے عالم اسلام پرحملہ تصور کیا جائے گا ماضی کے تناظر میں شاید ہمارا موقف یہ نہ ہوتا کہ ایران پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائے گا اب البتہ یہ ثبوت اور اظہار ہے اس بات کا کہ بش اور مشرف کے درمیان فکر و نظر میں نہ صرف کچھ اختلاف موجود ہے بلکہ ان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا واضح اشارہ بھی ہے۔ میں پاک امریکہ کشیدگی کے اسباب بیان کر رہا ہوں۔ ایک اور بڑا اہم سبب یہ ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان اور افغانستان کی جو سرحد ہے۔ ہمارے جو قبائلی علاقے ہیں یا فاٹا اور ناردرن ایریاز ہیں وہاں پر مغرب اور امریکہ کے کہنے کے مطابق القاعدہ کا عنصر بھی موجود ہے اور طالبان تو بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ غیر معمولی مقدار میں طاقت کا استعمال کرکے ان عناصر کو کچل دیا جائے ان کو تہس نہسں کر دیا جائے خواہ طاقت کے استعمال کے دوران کچھ پاکستانی بھی شہید ہو جائیں تو اس کی بھی پروا نہ کی جائے۔ حال ہی میں جنرل ابی زید پاکستان آئے تھے تو یہی بات ہی کرنے آئے تھے کہOnce for all قبائلی علاقے میں اور جنوبی وزیرستان میں جو عناصر موجود ہیں یا پناہ گزیں ہیں ان میں غیر ملکی تو ہیں ہی، جو مقامی لوگ بھی ہیں اور ان عناصر کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ان کو سپورٹ کریں۔ جس قسم کی Roothless Suppressionمغرب اور امریکہ مانگ رہا ہے ہم اس سطح پر جانے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم اپنے شہریوں کو اس حد تک دبا نہیں سکتے انہیں بڑی تعداد میں قتل اور شہید نہیں کر سکتے ان وجوہات کی وجہ سے پاکستان کے لئے بڑی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ دونوں فریقوں کے درمیان Stricking Pointہے جو روش ہم نے اختیار کر رکھی ہے وہ امریکہ کے لئے اطمینان بخش نہیں ہے اسی لئے وہ بار بار ہمیں Do more Do moreکہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب صدر بش پاکستان آئے تھے اور انہوں نے صدر مشرف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی اس میں انہوں نے بالکل واضح طور پر یہ کہا تھا کہ میں یہاں یہ دیکھنے کے لئے بھی آیا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کے ساتھ پاکستان کی وابستگی کی نوعیت کچھ عرصہ پہلے یعنی 9/11کے فوراً بعد یا اس کے سال دو سال بعد تک والی ہے یا اس میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے پھر انہوں نے کہہ بھی دیا کہ ایسا ہی ہے یہ تو خیر کہنے کی بات تھی لیکن ان کا یہ کہنا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری مشرف حکومت کی مہم میں کوئی کمی تو نہیں آئی، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے کچھ تحفظات ہیں۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاک امریکہ تعلقات میں کچھ کچھ کشیدگی آئی ہے۔ غریب ملک میں مسرفانہ اخراجات پارلیمینٹ میں بجٹ پر بحث جاری ہے لیکن ایک آدھ جھلکی ایسی ہے جو قارئین کو دکھانا ضروری ہے۔ بجٹ میں ایوان صدر کیلئے 29کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم رکھی گئی ہے۔ دوسروں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی سیکرٹری انفارمیشن مس شیری رحمن نے اس رقم پر اعتراض کیا اور ایک دلیل یہ بھی دی کہ صدر اپنا زیادہ وقت آرمی ہاؤس میں گزارتے ہیں جس کے اخراجات کے لئے بجٹ میں علیحدہ سے رقم رکھی گئی ہے اس لئے یہ خرچہ جواز سے بہت زیادہ ہے۔ ایم ایم اے کے حافظ حسین احمد نے کہا کہ صدر پچھلے دنوں کوئٹہ گئے تھے اس پر چھ کروڑ روپیہ خرچ ہوا پھر وہ ایک دن کے لئے کراچی گئے اس پرنو کروڑ روپیہ خرچ ہوا۔ اکثر ارکان نے ان اخراجات پر بجا طور پر تنقید کی لیکن ظاہر ہے کہ بجٹ بڑی حد تک جوں کا توں منظور ہو جائے گا۔
Wednesday, June 14, 2006
رباعیات
رُباعیات
اقبال
1
یقیں، مثلِ خلیل آتش نشینی
یقین، اللہ مستی، خود گزینی
سن، اے تہذیب حا ضر کے گرفتار
غلامی سے بد تر ہے بے یقینی
2
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحیدِ امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے
3
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفسِ ہندی، مقامِ تازی
نگہِ آلودہ اندازِ افرنگ
طبعیتِ غزنوی، قسمتِ ایازی!
فرہنگ
1
مثلِ خلیل: حضرت ابراہیم علیہ سلام کی طرح۔ جنہیں نمرود نے آگ میں ڈالا، لیکن خدا کے حکم سے وہ آگ گلزار بن گئی۔
آتش نشینی: آگ میں بیٹھنے کی حالت
اللہ مستی: محبوبِ حقیقی سے عشق کی حالت
خود گزینی : خود کو چننے کی کیفیت
عرب کا سوز: مراد مسلمانوں کا جذبہ عشق
2
سازِ عجم: مراد غیر اسلامی تعلیمات اور نظریات کا اثر
حرم: مکہ جو کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا مرکز ہے
توحیدِ امم : مختلف قوموں کا یکجا ہونا
تہی : خالی
اندیشہ غرب : اہلِ یورپ کی سوچ اور فکر
بے حرم: یعنی مکے کے بغیر
3
نے نوازی: بانسری بجانا مراد موسیقی
نفسِ ہندی : مراد ہندوستان کا باشندہ
مَقامِ نغمہ : گانے کا سر
آلودہ: لوتھڑی ہوئی
اندازِ فرنگ: اشارہ ہے علامہ کے یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف
طبعیت غزنوی : مراد شاہانہ طبعیت
قسمتِ ایازی : مراد قسمت کے لحاظ سے غلام
Sunday, June 11, 2006
آگے آئیں اور زبان اور قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ویکیپیڈیا اردو کو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جو اردو یونیکوڈ کا تجربہ رکھتے ہوں ،چاہے یہ تجربہ معمولی ہی ہو، اور جنہیں اردو اور قوم سے محبت ہو۔ میرا خیال ہے کہ اردو ویب پر موجود تمام حضرات ہی اسکے قابل ہیں۔
Friday, June 09, 2006
کیا بھارت ایک ناکام ریاست ہے
Date: Sunday, August 21, 2005
روزنامہ جنگ
بھارت۔ ایک ناکام ریاست؟,,,,,,, ثروت جمال اصمعی
پاکستان کی طرح بھارت نے بھی ماہِ رواں میں اپنی آزادی کے 58 سال مکمل کرلیے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں عالمی مبصراکثر ناکام ریاست ہونے کی باتیں کرتے رہتے ہیں جبکہ بھارت کو عموماً ایک کامیاب اور مستحکم ملک قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم خود بھارت میں بعض حلقے اس رائے کے شدید مخالف ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارتی ماہنامے ہارڈ نیوز کا اگست کا شمارہ ہے جس میں واقعاتی حقائق کی روشنی میں بھارت کے ایک کامیاب ریاست ہونے کے تاثر کی پرزور تردید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کئی چشم کشا تجزیاتی رپورٹیں اس شمارے میں شامل ہیں۔ ہارڈ نیوز کے مطابق ترقی کے تمام دعووں کے باوجود بھارت کی 70فیصد آبادی آج غربت کی لکیر سے نیچے جاچکی ہے۔ زندگی کی انتہائی ناگزیر سہولتیں بھی اسے حاصل نہیں ہیں۔ جبکہ جموں و کشمیر، بہار، جھارکھنڈ،چھتیس گڑھ، ناگا لینڈ،منی پور اور آسام کے علاوہ اتر پردیش اور آندھرا پردیش کے کئی اہم علاقوں میں انارکی پھیلی ہوئی ہے۔حتیٰ کہ وہ صوبے بھی جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہاں کسی نہ کسی حد تک نظم و ضبط برقرار ہے، پولیس کے ریکارڈ کی رو سے سخت افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہیں۔ میگزین کے مطابق پچھلے سال دہلی میں ریکارڈ پر آجانے والے جرائم میں55فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہلی اور ممبئی میں پولیس مجرموں سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ماورائے قانون طریقے اختیار کررہی ہے جن کے لیے عموماً” پولیس مقابلے“کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ ”ہارڈ نیوز “ کے بقول ان ”مقابلوں“ میں کبھی کسی پولیس والے کے جسم پر خراش بھی نہیں آتی جس سے ان کی حقیقت پوری طرح عیاں ہے۔اس کے باوجود عام طور پر ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے ان کارروائیوں پر داد و تحسین کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جریدے کی جانب سے اس صورتحال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان عناصر کو اس بات کاذرا احساس نہیں کہ اس طرح معاشرے سے انصاف ختم ہوجاتا ہے اور ظلم کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ جرائم کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے کہ قتل اور ڈکیتیوں جیسے بڑے جرائم میں سے صرف ایک تہائی کسی حل تک پہنچتے ہیں جبکہ بمشکل صرف دس فیصد وارداتوں میں مجرموں کو سزا ملتی ہے۔معاشرے میں قانون شکنی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ایک کھلے مظہر کے طور پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی مثال پیش کی گئی ہے۔ جریدے کے مطابق لوگ اب بالعموم سرخ سگنل پر رکنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف دہلی میں سال رواں کے ابتدائی چھ مہینوں میں آٹھ سو افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ عدلیہ اور دیگر حکومتی اداروں کے حال زار کا ذکر کرتے ہوئے ”ہارڈ نیوز“ بتاتا ہے کہ وہ ادارے جن سے ریاست کے اقتدار کا جواز مہیا ہوتا ہے سخت ابتری کا شکار ہیں۔ عدالتوں میں خاص طور پر نچلی سطح پر انصاف کا معیار قابل اطمینان نہیں ہے اور مقدمات میں دھاندلی عام ہے۔اس کی کچھ مثالیں بھی دی گئی ہیں جن میں سے ایک سنجے دت کا کیس ہے جوغیرقانونی طور پر دو اے کے 47رائفلیں رکھنے پر گرفتار ہوا تھا۔ جریدے کے مطابق اس جرم کا ارتکاب کشمیر یا منی پور میں ہوتا تو مجرم” پولیس مقابلے“ میں ہلاک کردیئے جاتے ۔ لیکن سنجے دت کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اسے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔پھر یہی نہیں بلکہ سنجے دت کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ نیویارک میں ڈنر کا اعزاز بھی بخشا گیا۔ جریدے کے مطابق کرپشن پورے معاشرے میں رچ بس چکا ہے جبکہ نظام انصاف کی سست رفتاری کے سبب اعلیٰ عدالتوں میں کئی ملین مقدمات کا انبار لگا ہواہے۔سول اور کاروباری معاملات پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انصاف میں تاخیر کاروباری معاہدوں اور سمجھوتوں کے ٹوٹنے کا سبب بن رہی ہے۔ ہارڈ نیوز انکشاف کرتا ہے کہ خود حکومت اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں شریک ہے۔مختلف کاروباری ادارے اور سرکاری محکمے ایسی جائیدادوں پر قابض ہیں جن کی لیز مدتوں پہلے ختم ہوچکی ہے۔یہ طریقہ اتنا عام ہے کہ اب اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس پر حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ہارڈ نیوز لکھتا ہے : ”ہم نے ایک ایسا نظام تشکیل دے ڈالا ہے جو بے اعتمادی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اس صورتحال میں یہ بات کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں کہ ہمارے ہاں آج سیاست کے بعد سب سے منافع بخش پیشہ قانون کا ہے۔“جریدے کے مطابق چوری ڈکیتی جیسے جرائم کے مقدمات درج کرانے کے لیے بھی پولیس کو اکثر رشوت دینی پڑتی ہے۔ ریاست کے عدالتی نظام کی اس تباہ حالی کے سبب عوام اب حصول انصاف کے لیے دوسرے راستے اختیار کررہے ہیں۔ممبئی میں اس مقصد کے لیے جرائم پیشہ تنظیموں کے کرتا دھرتاوٴں سے رجوع کیا جاتا ہے۔مغربی یوپی میں لوگ ملکی عدالتوں کے بجائے برادری کی پنچایتوں میں اپنے معاملات تصفیے کے لیے لے جاتے ہیں۔بہار میں مافیا لیڈروں سے مقدمات کے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔ہارڈ نیوز لکھتا ہے ”ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ان غیر رسمی طریقوں سے ملنے والے انصاف کو اکثر ملک کے آئینی اور قانونی نظام سے حاصل ہونے والے انصاف کی نسبت برتراور بہتر تصور کیا جاتا ہے۔“ عوامی خوشحالی کے حکومتی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ورلڈ بینک کی سالانہ ترقیاتی رپورٹ کے حوالے سے جریدہ بتاتا ہے کہ عوام کے معیار زندگی میں اضافے کے اعتبار سے بھارت دنیا کے پانچ پست ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔تقریباً 70فیصد بھارتی شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ متوازن غذا، رہائش، تعلیم، صحت اوربنیادی شہری سہولتوں کے معاملے میں مطلوبہ معیار سے بہت نیچے ہیں۔کم و بیش 60فیصد بھارتی ناخواندہ ہیں۔نومولود بچوں کی شرحِ اموات 137فی ہزار ہے۔ اس تمام صورتحال سے ہارڈ نیوز یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ” انفرا اسٹرکچر کے تمام پیمانوں کے اعتبار سے ، چین تو کیا ہم اُس پاکستان سے بھی کہیں پیچھے ہیں جسے ہم ناکام ریاست کہتے ہیں۔“ ٹھوس حقائق پر مبنی اس جائزے سے واضح ہے کہ بھارت اپنے بے پناہ وسائل اور معاشی ترقی کی متاثر کن شرح کے باوجود، جو فی الوقت چھ فیصد ہے اور آئندہ برسوں میں جس کے سات آٹھ فیصد تک جاپہنچنے کے امکانات بتائے جاتے ہیں، اپنے عوام کی حالت سدھارنے میں بری طرح ناکام ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ بے رحم سرمایہ دارانہ نظام معیشت ہے جس میں ایک محدود طبقے کو پورے معاشرے کے استحصال کی کھلی آزادی مل جاتی ہے۔وہ اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے ان کے منہ کے نوالے چھین سکتا ہے۔ کروڑوں افراد کو بیروزگار کرسکتا ہے۔محنت کشوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اجرت کی کم سے کم سطح پر رکھ کر اور اجارہ داریاں قائم کرکے اپنے منافع کوزیادہ سے زیادہ بڑھانے کا ہر حربہ اختیار کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں چند لوگوں کے پاس دولت کے انبار لگتے چلے جاتے ہیں جبکہ معاشرے کی بھاری اکثریت روزبروز غریب تر ہوتی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے آج پوری دنیا پر یہ نظام ایک خوں آشام عفریت کی طرح مسلط ہوگیا ہے اور دنیا کے بیشتر ملکوں پر اسی نظام کے نمائندوں کی حکومت ہے۔ بھارت میں بھی یہی صورت ہے اور خود پاکستان بھی اسی راہ پر گامزن ہے ۔حالات اسی رخ پر آگے بڑھتے رہے تو جنوبی ایشیا کے ایک ارب سے زائد عوام روز بروز پستے چلے جائیں گے۔ اس لیے بھارت اور پاکستان کے تمام ہوشمند لوگوں کو اپنے ہم وطنوں کے حال زار کو مزید ابتر ہونے سے بچانے کے لیے اس نظام کی بھرپور مزاحمت کرنی چاہئے، اور سرمایہ دار طبقے کو کھلی چھوٹ دینے کے بجائے عام آدمی کی فلاح و بہبود کے ناگزیر تقاضوں کی تکمیل کے لیے دونوں ملکوں میں مناسب قانون سازی کی تحریکیں چلائی جانی چاہئیں۔ بھارتی عوام کی زبوں حالی کی دوسری وجہ جنگی تیاریوں پر بے پناہ وسائل کا صرف کیا جانا ہے۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ہی سے انتہائی مجنونانہ انداز میں یہ سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اس کے فوجی بجٹ میں ہرسال خطیر اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔اس کے نتیجے میں پاکستان کو بھی مجبوراً اپنے وسائل کا بھاری حصہ دفاع پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر بھارتی حکمراں اپنے اس رویّے کو تبدیل کرکے پاکستان کے ساتھ امن سے رہنے پر تیار ہوجائیں اور اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے بنیادی سبب تنازع کشمیر کو منصفانہ طور پر حل کرلیں تو دونوں ملک اپنے کروڑوں شہریوں کے شب وروز کی تلخیوں کو دور کرنے اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے بہت کم وقت میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے باشعور اور امن و ترقی کے آرزومند لوگوں کو اس مقصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے۔sjasmai@yahoo.com
پھر وہی دور آرہا ہے
پھر وہی دور آ رہا ہے، دوست!
محمد عثمان جامعی
یاد ہے نہ وہ ذلتوں کا دور
پابہ زنجیر ساعتوں کا دور
دور وہ ظلم کے قرینے کا
اجرتیں کھا کے خون پینے کا
بکتی روحوں کا بکتے جسموں کا
وہ بند داغنے کی رسموں کا
اپنا بس اک سراغ رکھتے تھے
اپنے ہونے سے بد گماں تھے ہم
ان دنوں آدمی کہاں تھے ہم
کتنا خون دے کے خون دور بدلا ہے
کچھ تو ہم نے وہ طور بدلا ہے
وقت پیچھے کو جا رہا ہے ، دوست
پھر وہی دور آ رہا پے دوست
وقت کی باگ تھام لو یارو!
اس کو مڑنے سے روک لو یارو!
پھر وہی یہ جہاں نہ ہو جائے
اک صدی رائگاں نہ ہو جائے
امیر المومنین کی طرف سے
امیر المومنین کی طرف سے………
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ کے بندے عمرؓ ! امیر المومنین کی طرف سے
نعمان بن مقرن کے نام
السلام علیک!
اس معبود کا سپاہی گزار ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایرانیوں کی ایک فوج تم سے لڑنے نہاوند میں جمع ہوئی ہے۔ میرا خط پا کر اللہ کے حکم اور مدد سے ان مسلمانوں کے ساتھ، جو تمھارے پاس ہیں، نکل کھڑے ہو۔۔۔ ان کو پتھریلے یا دشوار گزار راستوں سے نہ لے جانا، نہ ان کو ان کے جائز حق سے مرحوم کرنا، نشیبی جنگلوں سے بھی ان کو ہر گز نہ گزارنا۔ کیونکہ مجھے ایک مسلمان کی جان ایک لاکھ دینار سے زیادہ عزیز ہے۔
مہر
والسلام
ithinkurdu
آج سے انشا اللہ باقاعدہ بلاگنگ کا آغاز کر دوں گا۔ میں نے ایک نیا بلاگ ithinkurdu کے نام سے بنایا ہے۔ جس کے بارے میں آپ کے خیالات کا منتظر ہوں
http://ithinkurdu.blogspot.com
جن کے اصل دشمن نہیں ہوتے!۔
جن کے کوئی اصل دشمن نہیں ہوتے…….!
جن کے کوئی اصل دشمن نہیں ہوتے ان کے سچے دوست بھی نہیں ہوتے۔ ہم اس وقت اپنوں سے محبت نہیں کرسکتے جب تک غیروں سے نفرت نہیں کرتے۔ یہ وہ قدیم حقیقتیں ہیں جن کو ہم کئی سو سالوں بعد جان رہے ہیں۔ جو لوگ ان حقیقتوں کو ٹھکراتے ہیں وہ رد حقیقت اپنے خاندان، اپنے ورثے، اپنے جنم کے حق اور یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی ٹھکراتے ہیں۔ اور بے شک انھیں کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔۔۔!
بحوالہ:
Clash of Civilizations
By: Semoil P Watington
مینار پاکستان
برصغیر میں عالمگیری میناروں کے بعد جو پہلا اور اہم مینار مکمل ہو، وہ مینار پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں مگر ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوار اور فرنگیوں کا پڑاو شامل ہیں، تین صدیوں پر محیط ہے۔۔۔۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گم شدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا کہ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راس کی بات کہہ دی۔۔۔ "جب مسجدیں بے رونق اور مدد سے بے چراغ ہو جائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کی بجائے مفاد اور ملت کی بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں یونہی گم ہو جاتی ہیں۔"
مختار مسعود۔ آوازِ دوست
انگریزی اصطلاحات
جہاں تک انگریزی اصطلاحات کا تعلق ہے تو ان اصطلاحات کو اردو میں برقرار رکھا جائے۔ اردو ایسی زبان ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاط جذب کر لیتی ہے۔مثلا ریڈیو، ٹی وی، اسٹیشن اور کمپیوٹر وغیرہ جیسے ہزاروں الفاظ اردو میں جوں کے توں شامل ہوگئے ہیں۔ اور اب یہ اردو زبان ہی کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں اجنبیت نہیں رہی۔ ہم ان الفاظ سے بخوبی واقف ہیں اور انھیں بخوشی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس طرح انگریزی اصطلاحات کو اردو میں استعمال کر لیا جائے، جن اصطلاحات کا اردو میں مترادف مل جائے تو ٹھیک ہے اور ان کا استعمال کیا جائے ورنہ اگر انگریزی اصطلاحات کے ساتھ زبردستی کی گئی تو یہ الٹا اردو ہی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گئیں۔
پروفیسر سید ساجد حسین