پھر وہی دور آرہا ہے
پھر وہی دور آ رہا ہے، دوست!
محمد عثمان جامعی
یاد ہے نہ وہ ذلتوں کا دور
پابہ زنجیر ساعتوں کا دور
دور وہ ظلم کے قرینے کا
اجرتیں کھا کے خون پینے کا
بکتی روحوں کا بکتے جسموں کا
وہ بند داغنے کی رسموں کا
اپنا بس اک سراغ رکھتے تھے
اپنے ہونے سے بد گماں تھے ہم
ان دنوں آدمی کہاں تھے ہم
کتنا خون دے کے خون دور بدلا ہے
کچھ تو ہم نے وہ طور بدلا ہے
وقت پیچھے کو جا رہا ہے ، دوست
پھر وہی دور آ رہا پے دوست
وقت کی باگ تھام لو یارو!
اس کو مڑنے سے روک لو یارو!
پھر وہی یہ جہاں نہ ہو جائے
اک صدی رائگاں نہ ہو جائے
1 Comments:
اچھی نظم ہے!
11:00 PM
Post a Comment
<< Home