Friday, June 09, 2006

کیا بھارت ایک ناکام ریاست ہے

Date: Sunday, August 21, 2005
روزنامہ جنگ
بھارت۔ ایک ناکام ریاست؟,,,,,,, ثروت جمال اصمعی

پاکستان کی طرح بھارت نے بھی ماہِ رواں میں اپنی آزادی کے 58 سال مکمل کرلیے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں عالمی مبصراکثر ناکام ریاست ہونے کی باتیں کرتے رہتے ہیں جبکہ بھارت کو عموماً ایک کامیاب اور مستحکم ملک قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم خود بھارت میں بعض حلقے اس رائے کے شدید مخالف ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارتی ماہنامے ہارڈ نیوز کا اگست کا شمارہ ہے جس میں واقعاتی حقائق کی روشنی میں بھارت کے ایک کامیاب ریاست ہونے کے تاثر کی پرزور تردید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کئی چشم کشا تجزیاتی رپورٹیں اس شمارے میں شامل ہیں۔ ہارڈ نیوز کے مطابق ترقی کے تمام دعووں کے باوجود بھارت کی 70فیصد آبادی آج غربت کی لکیر سے نیچے جاچکی ہے۔ زندگی کی انتہائی ناگزیر سہولتیں بھی اسے حاصل نہیں ہیں۔ جبکہ جموں و کشمیر، بہار، جھارکھنڈ،چھتیس گڑھ، ناگا لینڈ،منی پور اور آسام کے علاوہ اتر پردیش اور آندھرا پردیش کے کئی اہم علاقوں میں انارکی پھیلی ہوئی ہے۔حتیٰ کہ وہ صوبے بھی جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہاں کسی نہ کسی حد تک نظم و ضبط برقرار ہے، پولیس کے ریکارڈ کی رو سے سخت افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہیں۔ میگزین کے مطابق پچھلے سال دہلی میں ریکارڈ پر آجانے والے جرائم میں55فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہلی اور ممبئی میں پولیس مجرموں سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ماورائے قانون طریقے اختیار کررہی ہے جن کے لیے عموماً” پولیس مقابلے“کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ ”ہارڈ نیوز کے بقول ان ”مقابلوں“ میں کبھی کسی پولیس والے کے جسم پر خراش بھی نہیں آتی جس سے ان کی حقیقت پوری طرح عیاں ہے۔اس کے باوجود عام طور پر ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے ان کارروائیوں پر داد و تحسین کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جریدے کی جانب سے اس صورتحال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان عناصر کو اس بات کاذرا احساس نہیں کہ اس طرح معاشرے سے انصاف ختم ہوجاتا ہے اور ظلم کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ جرائم کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے کہ قتل اور ڈکیتیوں جیسے بڑے جرائم میں سے صرف ایک تہائی کسی حل تک پہنچتے ہیں جبکہ بمشکل صرف دس فیصد وارداتوں میں مجرموں کو سزا ملتی ہے۔معاشرے میں قانون شکنی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ایک کھلے مظہر کے طور پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی مثال پیش کی گئی ہے۔ جریدے کے مطابق لوگ اب بالعموم سرخ سگنل پر رکنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف دہلی میں سال رواں کے ابتدائی چھ مہینوں میں آٹھ سو افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ عدلیہ اور دیگر حکومتی اداروں کے حال زار کا ذکر کرتے ہوئے ”ہارڈ نیوز“ بتاتا ہے کہ وہ ادارے جن سے ریاست کے اقتدار کا جواز مہیا ہوتا ہے سخت ابتری کا شکار ہیں۔ عدالتوں میں خاص طور پر نچلی سطح پر انصاف کا معیار قابل اطمینان نہیں ہے اور مقدمات میں دھاندلی عام ہے۔اس کی کچھ مثالیں بھی دی گئی ہیں جن میں سے ایک سنجے دت کا کیس ہے جوغیرقانونی طور پر دو اے کے 47رائفلیں رکھنے پر گرفتار ہوا تھا۔ جریدے کے مطابق اس جرم کا ارتکاب کشمیر یا منی پور میں ہوتا تو مجرم” پولیس مقابلے“ میں ہلاک کردیئے جاتے ۔ لیکن سنجے دت کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اسے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔پھر یہی نہیں بلکہ سنجے دت کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ نیویارک میں ڈنر کا اعزاز بھی بخشا گیا۔ جریدے کے مطابق کرپشن پورے معاشرے میں رچ بس چکا ہے جبکہ نظام انصاف کی سست رفتاری کے سبب اعلیٰ عدالتوں میں کئی ملین مقدمات کا انبار لگا ہواہے۔سول اور کاروباری معاملات پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انصاف میں تاخیر کاروباری معاہدوں اور سمجھوتوں کے ٹوٹنے کا سبب بن رہی ہے۔ ہارڈ نیوز انکشاف کرتا ہے کہ خود حکومت اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں شریک ہے۔مختلف کاروباری ادارے اور سرکاری محکمے ایسی جائیدادوں پر قابض ہیں جن کی لیز مدتوں پہلے ختم ہوچکی ہے۔یہ طریقہ اتنا عام ہے کہ اب اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس پر حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ہارڈ نیوز لکھتا ہے : ”ہم نے ایک ایسا نظام تشکیل دے ڈالا ہے جو بے اعتمادی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اس صورتحال میں یہ بات کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں کہ ہمارے ہاں آج سیاست کے بعد سب سے منافع بخش پیشہ قانون کا ہے۔“جریدے کے مطابق چوری ڈکیتی جیسے جرائم کے مقدمات درج کرانے کے لیے بھی پولیس کو اکثر رشوت دینی پڑتی ہے۔ ریاست کے عدالتی نظام کی اس تباہ حالی کے سبب عوام اب حصول انصاف کے لیے دوسرے راستے اختیار کررہے ہیں۔ممبئی میں اس مقصد کے لیے جرائم پیشہ تنظیموں کے کرتا دھرتاوٴں سے رجوع کیا جاتا ہے۔مغربی یوپی میں لوگ ملکی عدالتوں کے بجائے برادری کی پنچایتوں میں اپنے معاملات تصفیے کے لیے لے جاتے ہیں۔بہار میں مافیا لیڈروں سے مقدمات کے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔ہارڈ نیوز لکھتا ہے ”ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ان غیر رسمی طریقوں سے ملنے والے انصاف کو اکثر ملک کے آئینی اور قانونی نظام سے حاصل ہونے والے انصاف کی نسبت برتراور بہتر تصور کیا جاتا ہے۔“ عوامی خوشحالی کے حکومتی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ورلڈ بینک کی سالانہ ترقیاتی رپورٹ کے حوالے سے جریدہ بتاتا ہے کہ عوام کے معیار زندگی میں اضافے کے اعتبار سے بھارت دنیا کے پانچ پست ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔تقریباً 70فیصد بھارتی شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ متوازن غذا، رہائش، تعلیم، صحت اوربنیادی شہری سہولتوں کے معاملے میں مطلوبہ معیار سے بہت نیچے ہیں۔کم و بیش 60فیصد بھارتی ناخواندہ ہیں۔نومولود بچوں کی شرحِ اموات 137فی ہزار ہے۔ اس تمام صورتحال سے ہارڈ نیوز یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ” انفرا اسٹرکچر کے تمام پیمانوں کے اعتبار سے ، چین تو کیا ہم اُس پاکستان سے بھی کہیں پیچھے ہیں جسے ہم ناکام ریاست کہتے ہیں۔“ ٹھوس حقائق پر مبنی اس جائزے سے واضح ہے کہ بھارت اپنے بے پناہ وسائل اور معاشی ترقی کی متاثر کن شرح کے باوجود، جو فی الوقت چھ فیصد ہے اور آئندہ برسوں میں جس کے سات آٹھ فیصد تک جاپہنچنے کے امکانات بتائے جاتے ہیں، اپنے عوام کی حالت سدھارنے میں بری طرح ناکام ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ بے رحم سرمایہ دارانہ نظام معیشت ہے جس میں ایک محدود طبقے کو پورے معاشرے کے استحصال کی کھلی آزادی مل جاتی ہے۔وہ اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے ان کے منہ کے نوالے چھین سکتا ہے۔ کروڑوں افراد کو بیروزگار کرسکتا ہے۔محنت کشوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اجرت کی کم سے کم سطح پر رکھ کر اور اجارہ داریاں قائم کرکے اپنے منافع کوزیادہ سے زیادہ بڑھانے کا ہر حربہ اختیار کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں چند لوگوں کے پاس دولت کے انبار لگتے چلے جاتے ہیں جبکہ معاشرے کی بھاری اکثریت روزبروز غریب تر ہوتی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے آج پوری دنیا پر یہ نظام ایک خوں آشام عفریت کی طرح مسلط ہوگیا ہے اور دنیا کے بیشتر ملکوں پر اسی نظام کے نمائندوں کی حکومت ہے۔ بھارت میں بھی یہی صورت ہے اور خود پاکستان بھی اسی راہ پر گامزن ہے ۔حالات اسی رخ پر آگے بڑھتے رہے تو جنوبی ایشیا کے ایک ارب سے زائد عوام روز بروز پستے چلے جائیں گے۔ اس لیے بھارت اور پاکستان کے تمام ہوشمند لوگوں کو اپنے ہم وطنوں کے حال زار کو مزید ابتر ہونے سے بچانے کے لیے اس نظام کی بھرپور مزاحمت کرنی چاہئے، اور سرمایہ دار طبقے کو کھلی چھوٹ دینے کے بجائے عام آدمی کی فلاح و بہبود کے ناگزیر تقاضوں کی تکمیل کے لیے دونوں ملکوں میں مناسب قانون سازی کی تحریکیں چلائی جانی چاہئیں۔ بھارتی عوام کی زبوں حالی کی دوسری وجہ جنگی تیاریوں پر بے پناہ وسائل کا صرف کیا جانا ہے۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ہی سے انتہائی مجنونانہ انداز میں یہ سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اس کے فوجی بجٹ میں ہرسال خطیر اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔اس کے نتیجے میں پاکستان کو بھی مجبوراً اپنے وسائل کا بھاری حصہ دفاع پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر بھارتی حکمراں اپنے اس رویّے کو تبدیل کرکے پاکستان کے ساتھ امن سے رہنے پر تیار ہوجائیں اور اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے بنیادی سبب تنازع کشمیر کو منصفانہ طور پر حل کرلیں تو دونوں ملک اپنے کروڑوں شہریوں کے شب وروز کی تلخیوں کو دور کرنے اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے بہت کم وقت میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے باشعور اور امن و ترقی کے آرزومند لوگوں کو اس مقصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے۔sjasmai@yahoo.com

4 Comments:

Blogger Shuaib said...

بھارت ریاست نہیں بلکہ ایک ملک ہے ۔ اور روز افزوں ترقی پر ترقی کر رہا ہے ۔

10:04 PM  

تو کیا آپ نے یہ کالم نہیں پڑھا۔۔۔۔

11:46 PM  

اِس بلاگ پر موجود سبھی تحریریں آزادی اظہار پر مبنی ہیں نہ کہ کسی کی دل آزاری کیلئے ـ چونکہ یہ تحریریں صرف ذاتی خیالات کی ایک آن لائن ڈائری ہے ـ لٰہذا بلاگ پر موجود کسی بھی تحریر پر اعتراض ہو تو برائے مہربانی نیک آراء سے نوازیں ـ

آپ پی کے الفاط ہیں

11:48 PM  

Blogger awaz said...

india jesa bhi hy wahan bom dhamakay,atay ki qillet, bijli ka buhran, gas ki kami weghera wghera nhi hy, india ko nhi khud ki dekhain shochain or kucgh samjhain, india , indinasia say turky tek apni bala desti k khaab dekh raha hy, app 60, saal say sir creek hi khali nhi kerwa sakay

1:01 AM  

Post a Comment

<< Home