Tuesday, June 20, 2006

بجٹ 2006-07 الف

حرف تمنا ,,,ارشاد احمد حقانی
پاکستان کے ایک ریڈیو چینل ایف ایم 103کی ایک چار رکنی ٹیم نے چند روز پہلے حالات حاضرہ کے حوالے سے راقم کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا جو اس چینل سے بار بار نشر کیا جا رہا ہے۔ میں نے مناسب جانا کہ یہ انٹرویو ”جنگ“کے قارئین تک بھی پہنچ جائے۔ ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ صدر مشرف اور امریکہ کے تعلقات میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تواس کے کیا اثرات پاکستان کی سیاست پر پڑ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں انتخابات (صدارتی اور پارلیمانی)کب تک ہونے کا امکان ہے نیز صدر کے وردی میں رہتے ہوئے موجودہ اسمبلیوں ہی سے دوبارہ منتخب ہونے کے کس قدر امکانات ہیں اور اس پالیسی کے کیا مضمرات ہیں ۔ اس سوال کا جو جواب راقم نے دیا، پیش خدمت ہے: ج … آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بالکل واضح اور الگ ہے۔ وہ ہے صدر پرویز مشرف کے لئے امریکی سپورٹ میں کمی کے اندیشے یا خبریں۔ دوسرا حصہ ہے ملک کی داخلی سیاسی صورتحال، الیکشن کے امکانات اور پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے معاملات وغیرہ۔ میں پہلے آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب دوں گا آج مشرف بش تعلقات یا پاک امریکہ تعلقات کہہ لیجئے، اس سطح پر نہیں ہیں جس سطح پر 9/11کے فوراً بعد یا سال دو سال بعد تک رہے ہیں اب اس وقت ان میں جزوی انحطاط آگیا ہے۔ دونوں طرف کچھ خدشات ہیں کچھ ذہنی تحفظات ہیں۔ مشرف صاحب کا کہنا یہ ہے کہ بعض حوالوں سے پاکستان کو ایسا لائحہ عمل اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے یا آمادہ کیا جا رہا ہے جو ہم اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ مثال کے طور پر عراق میں ہمیں فوجیں بھیجنے کے لئے کہا گیا ہم پر بڑا دباؤ تھا۔ طرح طرح کے لالچ بھی دیئے گئے مگر ہم اپنی افواج عراق نہ بھیجنے کے فیصلے پر قائم رہے اگرچہ ہمارا بازو مروڑنے کی کوشش بھی تھوڑی بہت ہوئی لیکن ہم نے مزاحمت کی اور انکار کر دیا ۔ یوں ظاہر ہے کہ امریکہ مشرف کے اس طرز عمل سے خوش نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ کہ اس وقت ایران کا مسئلہ بہت بڑا ایشو بنا ہوا ہے۔ ایران کے حوالے سے امریکہ کی جو ترجیحات ہیں ظاہر ہے وہ ہماری نہیں ہیں۔ ہم یہ توا کثر کہہ چکے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانے چاہئیں یہ ہمارا موقف ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مغرب کا یا امریکہ کا جو بھی اختلاف ہے وہ مذاکرات کے ذریعے دور کیا جانا چاہئے۔ طاقت کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہئے لیکن امریکہ ہماری دونوں باتوں سے متفق نہیں ہے۔ امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ ایران کا یہ موقف کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی کے حصول کے لئے کوشاں ہے، غلط ہے یہ ایک سراب ہے، دھوکہ ہے۔ دراصل ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے ہم ایران کو ایسا کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے لیکن غیر جانبدار عالمی مبصرین بشمول پاکستان تمام کے تمام یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران واقعی جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا کامیاب کوشش کر چکا ہے۔ ہم اس کی بات کو Face Valueپر لیتے ہیں ہمارا موقف یہ ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے ا یٹمی توانائی کے حصول کی کوشش کر رہا ہے اور یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آئی ای اے ای کے سربراہ محمد البرادی نے اپنی جو آخری رپورٹ دی ہے اس میں انہوں نے بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ ہمارے پاس قطعاً اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے راستے پر چل رہا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم پوری طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس حوالے سے ایران کی طرف سے کی جانے والی تیاریوں کا ہمیں پوری طرح علم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ چیزیں ہمارے علم میں بھی نہ ہوں اور ہم اس شک میں ہیں کہ اس کے عزائم کیا ہیں۔ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ ایران کے تمام دعوے سراب ہیں اس کا ایک ہی Objectiveہے اور وہ ہے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول۔ چونکہ ایران تیل کی مقدار اور پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے لہٰذا تیل کی اس قدر بھاری مقدار کی موجودگی میں توانائی کا حصول ایران کے لئے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے پاس گیس کے ذخائر بھی بے پناہ ہیں اس لئے امریکہ کو اندیشہ ہے کہ یورینیم کی افزودگی (Enrichment of Uranium)کی جو بات ایران کر رہا ہے یہ صرف بم بنانے کے لئے ہے اور ہم اس کی اجازت کسی قیمت پر نہیں دیں گے چاہے اس کے لئے ہمیں طاقت ہی استعمال کیوں نہ کرنی پڑے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم ایران کے عزائم کے بارے میں کلیئر نہیں ہیں ہم اس کی اعلان کردہ پالیسی کو Face Vlueپر لیتے ہیں لہٰذا ہم اس کی بات پر یقین کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اختلاف کہیں ہے بھی تو طاقت کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے وزیر خارجہ توکہہ چکے ہیں کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو اسے پورے عالم اسلام پرحملہ تصور کیا جائے گا ماضی کے تناظر میں شاید ہمارا موقف یہ نہ ہوتا کہ ایران پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائے گا اب البتہ یہ ثبوت اور اظہار ہے اس بات کا کہ بش اور مشرف کے درمیان فکر و نظر میں نہ صرف کچھ اختلاف موجود ہے بلکہ ان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا واضح اشارہ بھی ہے۔ میں پاک امریکہ کشیدگی کے اسباب بیان کر رہا ہوں۔ ایک اور بڑا اہم سبب یہ ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان اور افغانستان کی جو سرحد ہے۔ ہمارے جو قبائلی علاقے ہیں یا فاٹا اور ناردرن ایریاز ہیں وہاں پر مغرب اور امریکہ کے کہنے کے مطابق القاعدہ کا عنصر بھی موجود ہے اور طالبان تو بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ غیر معمولی مقدار میں طاقت کا استعمال کرکے ان عناصر کو کچل دیا جائے ان کو تہس نہسں کر دیا جائے خواہ طاقت کے استعمال کے دوران کچھ پاکستانی بھی شہید ہو جائیں تو اس کی بھی پروا نہ کی جائے۔ حال ہی میں جنرل ابی زید پاکستان آئے تھے تو یہی بات ہی کرنے آئے تھے کہOnce for all قبائلی علاقے میں اور جنوبی وزیرستان میں جو عناصر موجود ہیں یا پناہ گزیں ہیں ان میں غیر ملکی تو ہیں ہی، جو مقامی لوگ بھی ہیں اور ان عناصر کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ان کو سپورٹ کریں۔ جس قسم کی Roothless Suppressionمغرب اور امریکہ مانگ رہا ہے ہم اس سطح پر جانے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم اپنے شہریوں کو اس حد تک دبا نہیں سکتے انہیں بڑی تعداد میں قتل اور شہید نہیں کر سکتے ان وجوہات کی وجہ سے پاکستان کے لئے بڑی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ دونوں فریقوں کے درمیان Stricking Pointہے جو روش ہم نے اختیار کر رکھی ہے وہ امریکہ کے لئے اطمینان بخش نہیں ہے اسی لئے وہ بار بار ہمیں Do more Do moreکہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب صدر بش پاکستان آئے تھے اور انہوں نے صدر مشرف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی اس میں انہوں نے بالکل واضح طور پر یہ کہا تھا کہ میں یہاں یہ دیکھنے کے لئے بھی آیا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کے ساتھ پاکستان کی وابستگی کی نوعیت کچھ عرصہ پہلے یعنی 9/11کے فوراً بعد یا اس کے سال دو سال بعد تک والی ہے یا اس میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے پھر انہوں نے کہہ بھی دیا کہ ایسا ہی ہے یہ تو خیر کہنے کی بات تھی لیکن ان کا یہ کہنا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری مشرف حکومت کی مہم میں کوئی کمی تو نہیں آئی، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے کچھ تحفظات ہیں۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاک امریکہ تعلقات میں کچھ کچھ کشیدگی آئی ہے۔ غریب ملک میں مسرفانہ اخراجات پارلیمینٹ میں بجٹ پر بحث جاری ہے لیکن ایک آدھ جھلکی ایسی ہے جو قارئین کو دکھانا ضروری ہے۔ بجٹ میں ایوان صدر کیلئے 29کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم رکھی گئی ہے۔ دوسروں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی سیکرٹری انفارمیشن مس شیری رحمن نے اس رقم پر اعتراض کیا اور ایک دلیل یہ بھی دی کہ صدر اپنا زیادہ وقت آرمی ہاؤس میں گزارتے ہیں جس کے اخراجات کے لئے بجٹ میں علیحدہ سے رقم رکھی گئی ہے اس لئے یہ خرچہ جواز سے بہت زیادہ ہے۔ ایم ایم اے کے حافظ حسین احمد نے کہا کہ صدر پچھلے دنوں کوئٹہ گئے تھے اس پر چھ کروڑ روپیہ خرچ ہوا پھر وہ ایک دن کے لئے کراچی گئے اس پرنو کروڑ روپیہ خرچ ہوا۔ اکثر ارکان نے ان اخراجات پر بجا طور پر تنقید کی لیکن ظاہر ہے کہ بجٹ بڑی حد تک جوں کا توں منظور ہو جائے گا۔

0 Comments:

Post a Comment

<< Home