Saturday, September 17, 2005

کچھ یادیں

کچھ یادیں، یادیں بس یادیں رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔

علی حیدر کا یہ گیت مجھے بہت بہت پسند ہے، آج میں نے سید عارف علی کے بلاگ کا یہ لکھا دیکھا تو اپنے آپ کو روک نہ سکا اور کاپی کرلیا۔ لہذا عارف صاھب اگر ہو سکے تو معاف کردیجئے گا۔ شکریہ۔ ویسے بھی میں کئی عرصے سے اس کی تلاش میں تھا۔

پرانی جینزاور گیٹار
محلے کی وہ چھت
اور میرے یار
وہ راتوں کوجاگنا
صبح گھر جانا
کود کے دیوار
وہ سگریٹ پینا
گلی میں جاکر
وہ کرنا دانتوں کو
گھڑی گھڑی صاف
پہنچنا کالج ہمیشہ لیٹ
وہ کہنا سر کا
گیٹ آوٹ فرام دا کلاس
وہ باہر جاکر ہمیشہ کہنا
یہاں کا سسٹم ہی ہے خراب
وہ جاکر کینٹین میں ٹیبل بجاکے
وہ گانے گانا یاروں کے ساتھ
بس یادیں یادیں
یادیں رہ جاتی ہیں
کچھ چھوٹی
چھوٹی باتیں رہ جاتی ہیں
وہ پاپا کا ڈاٹنا
وہ کہنا ممی کا
چھوڑیں جی آپ
تمہیں تو بس نظر آتا ہے
جہاں میں بیٹا میرا ہی خراب
وہ دل میں سوچنا
کر کے کچھ دیکھادیں
وہ کرنا پلینگ
روز نئی یار
لڑکپن کا وہ پہلا پیار
وہ لکھنا ہاتھوں پہ اے پلس آر
وہ کھڑکی سے جانکنا
لکھنا لیٹر انہیں بار بار
وہ دینا تحفے میں سونے کی بالیاں
وہ لینا دوستوں سے پیسے ادھار
بس یادیں یادیں
یادیں رہ جاتی ہیں
کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں رہ جاتی ہیں
ایسا یادوں کا موسم چلا
بولتا ہی نہیں دل میرا
کہاں میری جینز اور گیٹار
محلے کی وہ چھت اور میرے یار
وہ راتوں کو جاگنا
صبح گھر جانا کود کے دیوار
پرانی جینزاور گیٹار
محلے کی وہ چھت
اور میرے یار
وہ راتوں کوجاگنا
صبح گھر جانا
کود کے دیوار


بشکریہ: http://yadain.blogspot.com

2 Comments:

Blogger Shaper said...

lol... I like this song too ... its okay because i don't have a copy write of that song ....

7:46 PM  

thankx ha

6:10 PM  

Post a Comment

<< Home