ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ "تو کیا ہے؟"
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتکو کیا ہے؟
نہ شعلے میں یہ کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے؟
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے، پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے؟
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟
رگوں میں دوڑنے پھربے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا، تو پھر لہو کیا ہے؟
وہ چیز ، جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سواے بادئہ گلفام مُشکبو کیا ہے؟
رہی نہ طاقتِ گفتار، اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے؟
ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
تراکیب کے مطالب:
تو کیا ہے: مراد میری نظر میں تیری کوئی عزت نہیں۔
تند خو: تیز طرار، محبوب کی طرف اشارہ
پیراہن: لباس
جیب: مراد گریبان
حاجتِ رفو: سینے کی ضرورت
راکھ: عاشق جو جل کی راکھ ہوا
بادہ گلفامِ مشکبو: اعلٰی قسم کی خوشبودار شراب
شھ کا مصائب: بادشاہ کا ساتھی، بادشاہ کا چمچہ
Nahi Ad!L
i am little more than useless
Tuesday, September 06, 2005
کچھ دنوں پہلے بھائی "انتخابِ غالب" لے آئے، پہلی غزل جو میں نے پڑھی یا کہ لیجیے جس نے مجھے متوجہ کیا وہ یہ تھی:
2 Comments:
جناب جیب جیب ہی ہے گریبان نہیں ۔ بر سبیل تذکرہ سو سال پہلے کرتے کی جیب کا دہانہ گریبان سے ہی ہوتا تھا ۔ آجکل جیب داہنی طرف اور دل کے اوپر ہوتی ہے ۔
اگر عشق کو بھول کر فرض کر لیا جائے تو یہ اشعار آجکل کے عوام حکمران رشتے پر زبردست ثبت ہوتے ہیں ۔
3:54 PM
g g bilkul mera bhi yehi kiyaal hay....
12:29 PM
Post a Comment
<< Home