Sunday, September 11, 2005

جب سے میں نے رابی کی یہ کافی سنی ہے مجھے بلھے شاہ کا کلام پڑھنے کا اشتیاق بڑھ گیا، حالانکہ اس سے پہلے جنون بھی یہ پیش کر چکا ہے لیکن اس نے مجھے اتنا متاثر نہیں کیا۔۔۔۔۔ (کل سے میرا کالج [ایف سی کالج بھی کھل رہے ہیں۔۔)۔

Forman Christian College, Lahore.

بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیت آں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسٰی، نہ فرعون

بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں اندر بید کتاباں
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
نہ رہنا وچ خراباں
نہ وچ جاگن، نہ سون

بلھا کی جاناں میں کون
نہ وچ شادی نہ غمناکی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون

بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہنا وچ ندون

بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایاں
نہ میں آدم حوا جایا
نہ میں اپنا نام دھرایا
نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون

بلھا کی جاناں میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھا کی جاناں میں کون

4 Comments:

Anonymous Anonymous said...

بلھے شاہ کے بارے میں ایک مزے کی حکایت بیان کی جاتی ہے۔ ان کا زمانہ مغل بادشاہ اورنگزیب کا زمانہ تھا جو مغلوں کے جنرل ضیاءالحق تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں رمضان کے مہینے میں بہت سختی ہوا کرتی تھی اور سرِ عام کھانے پینے کی بے حد ممانعت تھی۔ ایک بار ایک موچی نے دیکھا کہ سامنے تھڑے پر ایک ملنگ سا بابا بیٹھا حقہ پی رہا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک سرکاری پیادے نے آکر اسے ڈانٹا ’اوہ بابا کیہہ کرنا ایں۔ بابے نے جواب میں ایک مجنونانہ ہنسی ہنسی تو پیادہ سمجھا کہ پاگل ہے۔ جب وہ چلا گیا تو بابا پھر اسی سنجیدگی سے حقہ پینے لگا۔ موچی نے سوچا کہ بابے نے خوب فراڈ چلایا ہے، کل میں بھی ایسے ہی کروں گا۔ اگلے دن موچی نے دکان پر جیسے ہی حقے کا پہلا کش لیا تو پیادے آئے اور اسے مارتے ہوئے لے گِئے اور حوالات میں بند کردیا۔ چند مہینوں بعد جب موچی رہا ہوکر آیا تو سیدھا بابے کے پاس گیا اور پوچھا کہ بابا یہ کیا ماجرا ہے، وہی کام تم کرتے ہو تو کوئی کچھ نہیں کہتا، میں کرتا ہوں تو مار پڑتی ہے۔ بابے نے ہنس کے کہا بیٹا تم دونوں دکانوں کے مزے لوٹنا چاہتے ہو، فقیری کے بھی اور روزی کے بھی۔ یا فقیری اختیار کرو اور پاگل کہلاؤ یا دکان چلاؤ اور بچے پالو۔
یہ تھے بابا بلھے شاہ جو رمزوں اور اشاروں سے دنیا سے باتیں کرتے تھے کہ اس کے علاوہ باقی سب جھوٹ ہے۔
اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ
میری بکل دے وچ چور نی۔
چوری چوری نکل گیا تے جگ وچ پے گیا شور نی

اگر سننا ہو تو عابدہ پروین نے اسے گایا ہے، سنئے اور سر دھنئے۔
مخلص: قادر یار

5:24 PM  

جی بالکل میں نے یہ سن رکھا ہے ، اور بلھے شاہ کی عظمت سے کسے انکار ہے۔۔۔۔۔

8:06 PM  

بلھے شاہ کا سارا کلام ہی بڑے مزے کا ہو۔۔۔۔۔ ویسے بلھے شاہ کے علاوہ باقی ہمارے صوفی شاعر کا کلام بھی نہایت اعلی ہے ۔۔۔ جیسے حضرت باہو

10:47 PM  

Blogger urdudaaN said...

آپ کی بدولت یہ کلام پڑھنے ملا، ورنہ صرف سننے ملتا تھا تو کچھ پلّے نھیں پڑتا تھا۔ شکریہ جی

12:51 PM  

Post a Comment

<< Home