تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتاہوں
یہ جنت ہر مبارک زاہدوں کو
کہ میں تیرا سامنا چاہتاہوں
ذرا سا تو دل ہے مگر شوق اتنا
میں وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اقبال
ایک دفعہ علامہ اقبال کے پاس کالج کے چند لڑکے آئے اور شوخی سے کنے لگے کہ سر جی آپ نے تو کہا تھا کہ عشق کی کوئی انتہا نہیں ہے؟ علامہ صاحب نے کہا جی بالکل!۔ لڑکے مچلے اور کہا تو جناب پھر آپ نے یہ کیوں لکھا کہ "تیرے عشق کی انتہا چاپتا ہوں"۔ سر اقبال مسکرائے اور کہا اس سے اگلے مصرعے پر بھی تو غور کرو نوجوانو۔
Nahi Ad!L
i am little more than useless
Thursday, December 29, 2005
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں اور امی نے سمجھائ نہیں
میں کیسے میٹھی بات کروں جب میٹھی کوئی چیز کھائی نہیں
جب نیا مہینہ آتا ہے بجلی کا بل آجاتا ہے
حالانکہ بادل بیچارا یہ بجلی مفت لٹاتا ہے
پھر آپنے گھر میں ہم نے بجلی بادل سے کیوں لگوائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
اگر بلی شیر کی خالہ ہے، پھر ہم نے اس کو کیوں پالا ہے
کیا شیر بہت نالائق ہے، اس نے خالا کو مار نکالا ہے
ہا جنگل کے راجہ کے یاں، ملتی دودھ ملائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
کیوں لمبے بال ہیں بھالو کے؟ کیوں اس نے ٹنڈ کرائی نہیں
کیا وہ بھی کندا بچہ ہے؟ یا اسکے ابو بھائی نہیں؟
یہ اسکا ہئیر سٹائل ہے ؟ یا جنگل میں کوئی نائی نہیں؟
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
مامی بھی پکاتی ہیں حلوہ آخر وہ کیوں حلوائی نہیں
بھیا کی منگنی ہو گئی ہے بھابھی ابھی تک کیوں آئی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
نانی کے میاں جب نانا ہیں اور دادی کے دادا ہیں
تب آپی سے پوچھا کیا باجی کے میاں باجا ہیں
وہ ہنس ہنس کے کنے لگیں اے نہیں یوں بھائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
جو تارے جگ مگ کرتے ہیں کیا انکی کوئی چاچی تائی نہیں
ہوگا کوئی رشتہ سورج سے یہ بات ہمیں بتلائی نہیں
پر چاند کس کا ماموں ہے جب امی کا وہ بھائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں اور امی نے سمجھائی نہیں
عادل کیسے میٹھی بات کرے جب میٹھی کوئی چیز کھائی نہیں
Thursday, December 22, 2005
دشتِ تنہائی میں
دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سایے تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو سے سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور افق کے پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تیری دلدار نظر کی شبنم
اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پر اس وقت تیری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن، آ بھی گئی وصل کی رات
فیض احمد فیض
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم رہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا عالم میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، فقط میں نے چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریخ بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجئے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
فیض احمد فیض
میں نے کہا تھا نہ کہ جب پیپرز ہو رہے ہوں تو بڑے فضول کام یاد آتے ہیں ، صرف یاد ہی نہیں آتے بلکہ دلِ ناداں انھیں کر بھی ڈالتا ہے، ابھی یہ ہی دیکھ لیجئے نہ چاہتے ہوئے بھی فیض صاحب کی دو غزلیں لکھ ڈالیں، اور ظاہر ہے اب انھیں پوسٹ بھی کرنا پڑے گا۔۔ ہے نہ
Wednesday, December 21, 2005
دسمبر ٹیسٹ