Saturday, January 12, 2008



کیا یہ بلاول بھٹو ہیں؟؟؟ پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ۔۔۔۔۔۔۔ :-o

Wednesday, December 06, 2006

Lahore Lahore Aye - Tariq Tafoo

lahore lahore aye pai...!

Pakistan

my luv pakitan!

Wednesday, November 22, 2006

کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں
ہزاروں سجدے ترپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں

عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا
پر تو نے دل ارزاں ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا


I am Muslim
Kill me and call it
“Collateral Damage”
Imprisoned me and call it
“Security Measure”
Exile my people en masse & call it
“New Middle East”
Rob my resources, invade my land, alter my leadership and call it
“Democracy”


سرحد جیسی اسلامی حکومتیں، امریکہ کا خفیہ ہتھیار
۔۔۔ زمرد نقوی۔۔۔۔ روزنامہ ایکسپریس

http://express.com.pk/epaper/index.aspx?Issue=NP_LHE&Page=Editorial_PAGE&Date=20061120

Monday, October 02, 2006

Gama-Wrestlers-01-[colour]


Wednesday, August 16, 2006

لمز میں تین ہفتے LUMS NOP

لمز میں تین ہفتے

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں NOP  کا Evaluation ٹیسٹ (جس کا میں نے پہلے ایک پوسٹ میں ذکر کیا تھا) پاس کرنے کے بعد لمز والوں نے ہمیں اپنے پاس تین ہفتوں کے لیے بلایا۔ سوچا تین ہفتے chill ماریں گے لیکن وہاں جا کر دیکھا تو سین بالکل الٹ تھا۔ پہلے ہی دن ہم سے چار ساڈھے چار گھنٹوں کا ٹیسٹ لے مارا۔ اور پھر آئندہ تین ہفتے بھی ہم کو خوب لتاڑا کہ نانی یاد آئی۔ روزانہ دو پیریڈز ہوتے تھے۔ ہر پیریڈ 3 سے 4 گھنٹوں کا۔ اور ظالموں نے اسی بات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہوم ورک بھی دبا کر دیا۔

وہ علیحدہ بات ہے کہ ہم جیسے شغلیہ "بچوں" نے وہاں بھی شغل کا سامان گم ہونے نہیں دیا۔ پورے پاکستان نے 150 بچوں کو سلیکٹ کیا گیا تھا۔ لمز ہوسٹل کی یادیں کبھی بھولنے نہیں پائیں گی۔ صبح 8:55 پر آنکھ کھلنی اور 9 بجے کلاس میں حاضر ہونا۔ ساری رات chill  اور صبح نماز کے بعد سونا۔ کامن روم میں ہی کرکٹ کے فلڈ لائٹ میچز ہوتے اور شطرنج کے چار چار گھنٹوں کے مقابلے۔ ہمارے کامن روم کے تقریبا 10 افراد تھے۔ جن میں سے 4 گلگت سے، 5 لاہور سے، 1 کراچی سے، 1 سکھر سے اور 3 پشاور سے تھے۔ صرف ہم 5 لاہوریوں کو ہی ہاسٹل میں رہنے کا اجازت نامہ مل سکا تھا۔ سب سے زبردست دوستیاں بن گئیں ہیں اور انشاء اللہ سب سے رابطہ رہے گا۔

اب میں اس سیشن کی ذرا وضاحت کرتا ہوں۔  NOP یعنی National Outreach Programe لمز کا ایک سکالر شپ پروگرام ہے جس کے تحت "لائق" اور مستحق بچوں کو یہاں مفت تعلیم دی جائے گی۔ پہلے ان کا ایک ٹیسٹ میں پاس کر چکا ہوں اور یہ کوچنگ سیشن ایک فائنل ٹیسٹ LBAT/SAT کے لیے تھا۔ LBAT  اس بار نومبر میں متوقع ہے۔ دعا کیجے کی میں یہ پاس کر جائوں۔

NOP سیشن میں میرے بننے والے دوست
جلال خان          ڈیرہ اسماعیل خان (کوہاٹ کیڈٹ کالج)
ناصر حسین          ہنزہ
طلحہ قاضی          کراچی
حامد               اسلامیہ کالج، پشاور
ابرار چودھری          لاہور
حافظ اظہار          لاہور
حافظ ارسلان          لاہور
حینف               سکھر
احسن               سکھر

Monday, August 07, 2006

بڑے دنوں کی بات ہے

بڑے دنوں کی بات ہے
مجھے تو اب یاد بھی نہیں
فضا عجب تھی لہر میں
میں جا رہا تھا شہر میں
اک گلی کے موڑ پر
کسی نے ہاتھ جوڑ کر
بڑی ادا سے یہ کہا
میری قسم ذرا رکو
میری قسم ذرا تھمو
میں اس کے دل کو توڑ کر
اور اس کو روتا چھوڑ کر
میں اک شان سے گزر گیا
مجھے تو اب یاد بھی نہیں
پھر اک اداس شام کو
میں چل پڑا اس راہ کو
پھر اسی گلی کے موڑ پر
میں رکا دل کو توڑ کر
مگر وہاں تھا نہ کوئی
جو کہتا ہاتھ جوڑ کر
میری قسم ذرا رکو
میری قسم ذرا تھمو

Sunday, July 23, 2006

فلسطینی بچے کے لیے لوری

فلسطینی بچے کے لیے لوری

مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے
تیری باجی کا
ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندر ما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچے

امی، ابا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

۞ فیض احمد فیض
(بیروت 80ء)

ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے

ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے

ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بلآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف زیلغارِ اعداء
ہء سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف زیورشِ جیش قضا
صف بستہ پہں ارواح الشہداء
               ڈر کاہے کا؟
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زہق الباطل
فرمودہ ربِ اکبر
ہے جنت اپنے پائوں تلے
اور سایہ رحمت سر پہ پے
               پھر کیا ڈر ہے؟
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بلآخر اک دن جیتیں گے


۞ فیض احمد فیض

(بیروت۔ 15 جون 1983ء)

وا میرے وطن

وا میرے وطن

وا میرے وطن! وا میرے وطن! وا میرے وطن!
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں
واقف تھے جو تیری راہوں سے
مرا آخری کرتا چاک ہوا
ترے شہر میں جو سلوایا تھا
اب تیری جھلک
بس اڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی
یا جُھریاں میرے ماتھے پر
یا میرا ٹوٹا ہوا دل ہے
وا میرے وطن! وا میرے وطن! وا میرے وطن!

۞ فیض احمد فیض